کولکاتا: کلکتہ ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ جس میں جسٹس اندرا پرسنا مکھرجی اور ہیرنموئے بھٹاچاریہ شامل تھے، نے اس سلسلے میں گورنر سے حلف نامہ طلب کیا تھا۔ اس بنچ نے سوال کیا تھا گورنر نے بل پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ لیکن پیر کو چیف جسٹس ٹی ایس شیوگنم کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ دونوں ججوں کا حکم فوری طور پر نافذ نہیں ہوگا۔
جسٹس مکھوپادھیائے اور جسٹس بھٹاچاریہ کی ڈویژن بنچ نے مغربی بنگال یونیورسٹی ایکٹ (ترمیمی) بل سے متعلق ایک معاملے میں 12 ستمبر کو گورنر کے دفتر سے حلف نامہ طلب کیاتھا۔دو ججوں کی ڈویژن بنچ نے ہدایت دی کہ راج بھون کو اس معاملے میں آئین کے آرٹیکل 163 کے مطابق 4 اکتوبر تک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا۔ دو ججوں کی بنچ نے کہا کہ کیس کی اگلی سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔ دو ججوں کی ڈویژن بنچ نے اس دن چیف جسٹس شیوگیانم کی غیر موجودگی میں کیس کی سماعت کی تھی۔ چیف جسٹس کے واپس آتے ہی کیس کی سماعت پیر کو ان کے بنچ میں ہوئی۔
کیس کی سماعت کے دوران، دو ججوں کی بنچ کو ریاستی حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ مغربی بنگال یونیورسٹی ایکٹ (ترمیمی) بل 2022 کو ریاستی اسمبلی نے گزشتہ سال 7 جون کو منظور کیا تھا۔ یہ بل اسی سال 15 جون کو گورنر کو بھیجا گیا تھا۔ لیکن گورنر بوس نے ابھی تک اس بل پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق گورنر ریاستی اسمبلی کے بل کو قانون بنانے کے لیے تین طریقے اپنا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، گورنر خود بل کی منظوری دیں گے۔ دوسرا، بل کو غور کے لیے صدر کو بھیجیں۔ تیسرا، بل کو ترمیم کے لیے دوبارہ غور کے لیے اسمبلی کو بھیج سکتے ہیں ۔ ریاستی حکومت نے الزام لگایا کہ گورنر نے کسی بھی راستے کا انتخاب نہیں کیا ہے۔ نتیجتاً بل راج بھون میں پڑا ہوا ہے۔
ریاستی حکومت نے دو ججوں کی بنچ میں دلیل دی کہ آئین کے آرٹیکل 163 کے تحت گورنر اس کے کام میں کابینہ کی مدد اور مشورہ لے سکتے ہیں ہے۔ لیکن آپ اس طرح تعاون کیے بغیر بل کو روک نہیں سکتے۔ اس معاملے میں جسٹس اندرا پرسننا مکھوپادھیائے نے مشاہدہ کیا کہ گورنر کسی بھی راستے کا انتخاب کر سکتے تھے۔ عدالت اس طرح گورنر کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔ لیکن کیا آئینی بحران پیدا ہونے پر بھی عدالت سوال نہیں کر سکتی؟ ہائی کورٹ کے مطابق گورنر اس معاملے میں ایک مخصوص مدت تک وقت لے سکتے ہیں۔ عدالت کا خیال ہے کہ گورنر کو اس سلسلے میں جواب دینا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:Jadavpur University طلبا وائس چانسلر سمیت اور کسی عہدیدار کی عزت نہیں کرتے ہیں، عبوری وائس چانسلر
سماعت کے دوران ریاستی وکیل نے کہا کہ یونیورسٹی کے بیشتر وائس چانسلرز کی میعاد 31 مئی تک ختم ہو چکی ہے۔ یہ بل ریاست کے تمام یونیورسٹی قوانین کو ایک چھتری کے نیچے لے آیا ہے۔ اب اس بل کے ٹھپ ہونے کی وجہ سے وائس چانسلر کی تقرری میں مسئلہ ہے۔ گورنر کی طرف سے مقرر کردہ عبوری وائس چانسلرکو لے کر بھی تنازع چل رہے ہیں ۔ دوسری طرف مرکز ی حکومت کے وکیل ڈپٹی سالیسٹر جنرل نے دعویٰ کیا کہ اس کیس کےسیاسی مقاصدہیں۔درخواست گزار کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ آئین کے مطابق عدالت اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔ لیکن اس دلیل کو مؤثر طریقے سے مسترد کرتے ہوئے بنچ نے راج بھون سے حلف نامہ طلب کیا۔ اتفاق سے سیون مکوپادھیائے سمیت کئی لوگوں نے اسمبلی بل میں یونیورسٹی قانون پر دستخط کرنے والے گورنر کے خلاف مفاد عامہ کا مقدمہ دائر کیا تھا۔