سرینگر: سیب کی صنعت کو جموں کشمیر کی معیشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق وادی میں سالانہ اوسطا 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ سیب کی پیداوار ہوتی ہے، جس سے شعبہ باغبانی کو 10 ہزار کروڑ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس صنعت سے یہاں کے تقریباً 45 لاکھ افراد منسلک ہیں۔
وادی کشمیر بھارت میں سیب کا ایک بڑا پروڈیوسر ہے، جو ملک کی سالانہ سیب کی پیداوار کا تقریباً 78 فیصد ہے۔ وادی کی سازگار آب و ہوا اور کسانوں کی محنت کے سبب سیب کی پیداوار میں کشمیر کا ایک اہم کردار ہے۔ سیب کی پیداوار کشمیر میں کسانوں کے لیے آمدنی اور روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سیب کی برآمدات کا خطے کے جی ڈی پی میں آٹھ فیصد سے زیادہ کی شراکت داری ہے۔
جموں و کشمیر میں سیب کی سالانہ پیداوار میں کئی برسوں سے اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 میں 2,054.828 ٹن، سنہ 2023 میں 2,146.347 میٹرک ٹن سنہ 2021–2022میں 1,901.85 میٹرک ٹن سنہ 2010-2011 میں 1,680 میٹرک ٹن کی پیداوار ہوئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آنے والے دنوں میں وادی میں سیب کی پیداوار میں مزید اضافے کا امکان ہے، کیونکہ ہائی ڈینسٹی سیب کے باغات کی جانب لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اور لوگ اپنی زرعی اراضی کو ایگریکلچر سے ہارٹیکلچر میں تبدیل کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہائی ڈینسٹی سیب اتارنے کا سلسلہ شروع
میوہ کاشتکاروں کو مختلف چیلینجز درپیش ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خشک سالی، ژالہ باری، قدرتی آفات، مارکیٹ کی مندی، قیمتوں میں گراوٹ، ٹرانسپورٹ کی کمی اور رکاوٹ کی وجہ سے کاشتکاروں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، تاہم رواں برس کا کیلینڈر سیب کے کاشتکاروں کے لیے قدرے بہتر رہا، حالانکہ رواں برس موسم خشک رہا تاہم اس کے باوجود منڈیوں میں سیب کی مانگ اچھی رہی۔
سیب کی تجارت اور کاشتکاری سے وابستہ افراد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ رواں برس سیب کی پیداوار میں کمی آئی، تاہم موزوں مارکیٹ رہنے اور بلا رکاوٹ ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل سے میوہ صنعت سے وابستہ افراد کو فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیزن کے کچھ ایام میں بازار ٹھنڈے رہے تاہم بعد میں قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: موسم کی تبدیلی سے گاندربل میں سیب کی پیداوار میں نمایاں کمی، باغ مالکان پریشان
تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے رواں برس میں بلا رکاوٹ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جس سے ملک کی مختلف منڈیوں تک تازہ مال کی رسائی ممکن ہو سکی۔ اس کے لیے وہ حکومت کے مشکور ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے مطالبہ ہے کہ سرکار کو غیر ملکی سیب پر سو فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد کرنا چاہیے تاکہ کشمیری سیب کے لئے مقابلہ کی کیفیت ختم ہوجائے اور یہاں کے سیب کو ہر جگہ پر ترجیح ملے۔ اس سے کاشتکار نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: غیر ملکی سیب کے سبب کشمیری سیب کی قیمتیں کم
تاجروں کا مزید مطالبہ ہے کہ کشمیری سیب کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کو یقینی بنایا جائے، لائن آف کنٹرول پر تجارت کو فعال کیا جائے تاکہ خلیجی ممالک تک کشمیری میووں کے لیے نئی راہیں کھل سکیں۔ اس سے مقامی معیشت کو نمایاں طور پر مزید فروغ ملے گا۔ فی الحال، کشمیری سیب کی برآمدات صرف بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان جیسے پڑوسی ممالک تک محدود ہیں، اس لیے کشمیری سیب کو بین الاقوامی برانڈ بنانے کے لئے مزید راستے کھولنے کی ضرورت ہے۔