واضح رہے کہ چمگاڈر ایسے جانوروں میں شمار ہوتا ہے جو الٹا لٹک کر کھاتے پیتے ہیں اور منہ کے ذریعے ہی اخراج کرنے والا یہ شکاری پرندہ ہے۔
خیال رہے کہ چمگاڈر قدرتی ریڈار سسٹم کے ذریعے اپنا روٹ طے کرتا ہے اور اندھیروں میں زندگی گزارنے والا یہ عجیب و غریب جاندار ہے۔
ہریدوار میں چمگادڑوں کا نام سنتے ہی ذہن میں منفی اثرات پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، اور لوگ رات میں چمگادڑوں کو گھومتے دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے، جبکہ کچھ اطلاعات میں چمگادڑوں کو کورونا وائرس کی وجہ بتایا گیا ہے، جس کے بعد دنیا بھر میں چمگادڑ عام آدمی کے لیے خوف کا مترادف بن گیا ہے، لیکن دھرم نگری ہریدوار میں اس کے برعکس ہے، یہاں ایک ایسی جگہ ہے جہاں چمگادڑ لوگوں سے نہیں ڈرتے، بلکہ یہاں چمگادڑ لوگوں کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔
ہریدوار کے جوالاپور میں سینکڑوں چمگادڑ موجود ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ آج تک ان چمگادڑوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔
ہندو عقید مندوں کا ایسا ماننا ہے کہ ہریدوار کا تجارتی علاقہ سمجھے جانے والے اس شہر کو ماں جوالا دیوی کا آشرواد ملا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے پجاری اس کو جوالاپور کے نام سے بلاتے ہیں، تاہم جوالاپور کی تاریخ بھی ہزاروں برس پرانی ہے۔
جوالا پور میں پانڈیوالی کا علاقہ گرو گورکھ ناتھ کی تپستھلی مانا جاتا ہے، جہاں جوالاپور کی پانڈیوالی گلی میں واقع گرو گورکھاتھ کے شاگردوں کی ایک یادگار جگہ ہے۔
مذہبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 12 برس بعد لگنے والے کمبھ میلے سے پہلے سادھو، سنت ایک ماہ تک اسی جگہ پر رہتے ہیں اور منتر اور مراقبہ کرتے ہیں، اس کے بعد ہی کمبھ کی پہلی پیشوائی نکلتی ہے جو کمبھ کو اور بھی زیادہ خوبصورت اور بناتی ہے۔
اب اگر چمگادڑ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو، 'تنترسِدّھی' کے سب سے بڑے اس مقام پر چمگادڑوں کی کثرت ہے۔
جوالاپور میں گورکھ ناتھ مندر کمپلیکس کے درختوں پر لٹکے ہوئے یہ چمگادڑ اچھے سمجھے جاتے ہیں۔