مرادآباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے حال ہی میں جیل کا معائنہ کیا تھا۔ جس میں سب کچھ درست بتایا گیا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد جیل انتظامیہ کی طرز عمل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ چلتی گاڑی میں دو سپاہیوں کا بہیمانہ قتل کر کے فرار ہونے والے تینوں قیدیوں پر قتل، رنگداری اور قتل کی کوشش جیسے سنگین مجرمانہ معاملے ددرج ہیں۔
اس سے قبل سال 2014 میں مرادآباد جیل میں قید تین قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعہ اور کل پیش آنے والے اس واقعہ میں کافی مماثلت ہے۔ پولیس اس معاملے کی جانچ کرر ہی ہے کہ موجودہ واقعہ میں گاڑی کے اندر طمنچہ، پستول، چاقو اور مرچ پاوڈر کیسے پہنچ گئے۔ اس پورے معاملے میں ابتدائی جانچ میں مرادآباد جیل انتظامیہ کی لاپرواہی اجاگر ہوئی ہے۔
جیل انتظامیہ قیدیوں کی سرگرمیوں کی بنیاد پر ان کی زمرہ بندی کرتا ہے۔ مشتبہ اور خطرناک واردات کا انجام دینے کی منصوبہ بندی کرنے والے قیدیوں کی جہاں اضافی نگرانی کی جاتی ہے اور ان کی فہرست تیار کر کے پولیس کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ جس طرح سے شاطر قیدی گاڑی کا پچھلے حصے کا شٹر کھول کر فرا ر ہوئے ہیں تو اصول کے مطابق اسے درست کرنے کی ذمہ داری آر اے آئی ایم ٹی کی ہے۔
اصول کے مطابق 24 قیدیوں سے بھری گاڑی کی سیکورٹی کے لئے چھ پولیس اہلکار کو تعینات کرنے کی تجویز ہے۔ ڈرائیور سمیت دو پولیس اہلکار گاڑی کے آگے کی سیٹ پر تعینات رہتے ہیں جبکہ چار پولیس اہلکار کو گاڑی کے پیچھے بیٹھنے کا قانون ہے۔ قیدیوں کی جس گاڑی پر حملہ کیا گیا اس میں سے پیچھے کی سیٹ پر صرف دو پولیس اہلکار تعینات تھے۔
پولیس کی جانب سے اب تک کی گئی جانچ میں یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ قیدیوں کے اس طرح وارادت کو انجام دینے کی سازش مرادآباد جیل میں تیار کی گئی۔ پولیس اس بات کی بھی تحقیق کررہی ہے کہ اس حادثے میں اور کتنے لوگ شامل ہیں۔
اس ضمن میں انسپکٹر جنرل آف پولیس امت شرما نے صحافیوں کو بتایا کہ سپاہیوں کے قاتلوں کی تلاش میں کئی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ لکھنؤ سے بھی ایس ٹی ایف کو بلایا گیا ہے۔ سرولانس کی مدد سے بھی فرار بدمعاشوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فرار قتل کے ملزم قیدی شکیل جسے ماسٹرمائنڈ مانا جارہا ہے۔ کمل اور دھرم پال اس سازش میں شامل ہیں۔ شکیل اور کمل مرادآباد ضلع جیل میں 22 اکتوبر2014 سے بند ہیں۔ جبکہ دھرم پال 17 اکتوبر 201 سے بند ہے۔ فرار قیدیوں کا چوتھا ساتھی بہجوئی باشندہ راجیندر موقع سے فرار نہیں ہوا ہے یہ بھی جانچ کا حصہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ قصورواروں کو جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔
چندوسی کے واقعہ نے جیل میں جاری لاقانونیت کی پول کھولی
اترپردیش کے ضلع سنبھل کے چندوسی میں دو سپاہیوں کا قتل اور تین قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعہ نے مرادآباد جیل میں جاری لاقانونیت کی قلعی کھول دی ہے۔
مرادآباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے حال ہی میں جیل کا معائنہ کیا تھا۔ جس میں سب کچھ درست بتایا گیا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد جیل انتظامیہ کی طرز عمل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ چلتی گاڑی میں دو سپاہیوں کا بہیمانہ قتل کر کے فرار ہونے والے تینوں قیدیوں پر قتل، رنگداری اور قتل کی کوشش جیسے سنگین مجرمانہ معاملے ددرج ہیں۔
اس سے قبل سال 2014 میں مرادآباد جیل میں قید تین قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعہ اور کل پیش آنے والے اس واقعہ میں کافی مماثلت ہے۔ پولیس اس معاملے کی جانچ کرر ہی ہے کہ موجودہ واقعہ میں گاڑی کے اندر طمنچہ، پستول، چاقو اور مرچ پاوڈر کیسے پہنچ گئے۔ اس پورے معاملے میں ابتدائی جانچ میں مرادآباد جیل انتظامیہ کی لاپرواہی اجاگر ہوئی ہے۔
جیل انتظامیہ قیدیوں کی سرگرمیوں کی بنیاد پر ان کی زمرہ بندی کرتا ہے۔ مشتبہ اور خطرناک واردات کا انجام دینے کی منصوبہ بندی کرنے والے قیدیوں کی جہاں اضافی نگرانی کی جاتی ہے اور ان کی فہرست تیار کر کے پولیس کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ جس طرح سے شاطر قیدی گاڑی کا پچھلے حصے کا شٹر کھول کر فرا ر ہوئے ہیں تو اصول کے مطابق اسے درست کرنے کی ذمہ داری آر اے آئی ایم ٹی کی ہے۔
اصول کے مطابق 24 قیدیوں سے بھری گاڑی کی سیکورٹی کے لئے چھ پولیس اہلکار کو تعینات کرنے کی تجویز ہے۔ ڈرائیور سمیت دو پولیس اہلکار گاڑی کے آگے کی سیٹ پر تعینات رہتے ہیں جبکہ چار پولیس اہلکار کو گاڑی کے پیچھے بیٹھنے کا قانون ہے۔ قیدیوں کی جس گاڑی پر حملہ کیا گیا اس میں سے پیچھے کی سیٹ پر صرف دو پولیس اہلکار تعینات تھے۔
پولیس کی جانب سے اب تک کی گئی جانچ میں یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ قیدیوں کے اس طرح وارادت کو انجام دینے کی سازش مرادآباد جیل میں تیار کی گئی۔ پولیس اس بات کی بھی تحقیق کررہی ہے کہ اس حادثے میں اور کتنے لوگ شامل ہیں۔
اس ضمن میں انسپکٹر جنرل آف پولیس امت شرما نے صحافیوں کو بتایا کہ سپاہیوں کے قاتلوں کی تلاش میں کئی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ لکھنؤ سے بھی ایس ٹی ایف کو بلایا گیا ہے۔ سرولانس کی مدد سے بھی فرار بدمعاشوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فرار قتل کے ملزم قیدی شکیل جسے ماسٹرمائنڈ مانا جارہا ہے۔ کمل اور دھرم پال اس سازش میں شامل ہیں۔ شکیل اور کمل مرادآباد ضلع جیل میں 22 اکتوبر2014 سے بند ہیں۔ جبکہ دھرم پال 17 اکتوبر 201 سے بند ہے۔ فرار قیدیوں کا چوتھا ساتھی بہجوئی باشندہ راجیندر موقع سے فرار نہیں ہوا ہے یہ بھی جانچ کا حصہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ قصورواروں کو جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔