میرٹھ: ریاست اترپردیش کے میرٹھ ضلع کے ملیانہ کے ہاشم پورہ میں 22 اور 23 مئی 1987 کو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات سے پوری ریاست میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ اس واقعے میں 70 زائد بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ میرٹھ کے ملیانہ قتل عام واردات کی یادیں 36 سال بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق نچلی عدالت میں ملیانہ کے تمام ملزمان کو بری کیے جانے کے بعد فسادات کے متاثرین اب انصاف کے لیے ہائی کورٹ کی طرف امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ متاثرین انصاف ملنے کی امید ظاہر کر رہے ہیں۔
22 مئی سن 1987 کو میرٹھ میں ہاشم پورہ قتل عام کے اگلے روز 23 مئی کو ہی میرٹھ کے ملیانہ علاقے میں پی اے سی پولیس اور بلوائیوں نے آگ زنی، لوٹ اور قتل کی وارداتوں کو کھلے عام انجام دیا تھا۔ مخلوط آبادی والے ملیانہ اور آس پاس کے محلہ میں پولیس پی اے سی اور مقامی شدت پسندوں نے مل کر مسلمانوں کے 125 سے زیادہ گھروں کو لوٹنے کے بعد نذر آتش کر دیا تھا۔
چشمدید افراد کے مطابق گھروں کو لوٹنے کے بعد جہاں پی اے سی کی شہ پر فسادی گھروں میں آگ زنی کرکے عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا رہے تھے، وہیں جان بچا کر بھاگ رہے لوگوں کو پولیس اور پی اے سی کے جوان اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس دن کو یاد کر کے متاثرہ خاندانوں کے زخم پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں۔
ملیانہ میں ہوئے وحشیانہ قتل عام معاملے میں 36 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا۔ اس معاملے میں ضلع سیشن کورٹ نے سماعت کے دوران گواہوں کی گواہی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے فساد کے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ ملیانہ فسادات کے متاثرین اب ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے بعد ان کو انصاف کی امید جگی ہے کہ ہائی کورٹ کے انصاف سے ان کے زخموں پر مرہم لگ سکے گا۔
یہ بھی پڑھیں:Robbery At Gunpoint کار میں لفٹ کے بعد گن پوائنٹ پر لوٹ،گروہ کا پردہ فاش،چار گرفتار
70 سے زیادہ اموات 36 سال کا وقفہ اور آٹھ سو سے زیادہ گواہیاں اور نتیجہ صفر۔ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف ملیانا متاثرین کے وکیل کی طرف ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی گئی ہے جس سے فساد متاثرین کو ایک مرتبہ پھر سے انصاف کی روشنی نظر آرہی ہے کہ شاید ان کو بھی ہاشم پورہ کی طرز پر انصاف مل سکے گا۔