راکیش ٹکیٹ کے آنسوؤں کے بعد جو حالات تبدیل ہوئے ہیں اس طوفان میں بی جے پی ڈوبتی جارہی ہے ۔ خاص طور پر مغربی اتر پردیش میں۔ اس تحریک نے مغربی یوپی میں اپوزیشن کو بھی متحد کردیا ہے۔ ساتھ ہی مسلمان اور جاٹ پھر ایک منچ پر اکٹھا ہونے لگے ہیں۔جو بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی اور مستقبل دونوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
کسان تحریک دراصل پنجاب کے کسانوں پر ہی مشتمل تھی اس میں ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کا ایک بھی ایک طبقہ شامل تھا۔ حکومت کا منصوبہ پنجاب کی کسان تنظیموں کو اس تحریک کے دوران الگ تھلگ کرنا تھا۔ تاہم بدلی ہوئی صورتحال میں کسان تحریک کا مرکز اب مغربی اتر پردیش بن گیا ہے۔ خاص طور پر جاٹ برادری نے اسے اپنی ساکھ کا سوال بنا دیا ہے۔
سنہ 2022 میں اسمبلی انتخابات سے عین قبل بی جے پی کے سامنے اب ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ریاست میں ہونے والے پنچایت انتخابات میں جلد ہی اس کا لیٹمس ٹیسٹ ہوگا۔
مغربی یوپی کے جاٹ اکثریتی علاقے میں بی جے پی کے لیے 2014 سے پہلے راستہ آسان نہیں تھا۔ لیکن 2013 میں مظفر نگر میں ہونے والے فسادات کے بعد پورے مغربی یوپی میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا آغاز ہوا۔ اور تب سے یہاں بی جے پی کا گراف مستقل طور پر بڑھتا ہی گیا ہے۔
یہاں تک کہ جاٹ ووٹ پر سیاست کرنے والے اجیت سنگھ اور ان کے بیٹے جینت چودھری کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف سنجیو بالیان اور ممبئی پولیس کے سابق کمشنر ستیہ پال سنگھ جیسے جاٹ رہنما بی جے پی میں کھڑے ہوگئے۔ اور وہ کابینہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
ان فتوحات نے بی جے پی کے ہندو مذہبی اور سخت قوم پرستانہ موقف میں مزید جان ڈالی دی اور راشٹریہ سیوک سنگھ اور ویشوا ہندو پریشد کے تنگ نظر ہندو بڑی تعداد میں بی جے پی میں شامل ہو گئے۔
مغربی یوپی لوک سبھا کی تقریباً 18 سیٹوں پر جاٹ ووٹ اثر انداز ہوتا ہے۔ ان میں سے دس فیصلہ کن ہیں۔ اسی طرح ودھان سبھا کی تقریباً 70 سیٹوں پر اثر انداز ہیں۔
مغربی یوپی کے تقریبا 18 اضلاع میں جاٹ بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ ان میں میرٹھ، شاملی، باغپت، سہارن پور، مظفر نگر، بجنور، علی گڑھ، بلندشہر، ہاپوڑ، غازی آباد، نوئیڈا، آگرہ، متھرا، فیروز آباد، سنبھل، امروہہ، مراد آباد شامل ہیں۔ مغربی یوپی میں 10 فی صد سے زائد جاٹ ہیں۔
مغربی یوپی کی 44 سیٹوں پر بی جے پی کو 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 43.44 فی صد ووٹ ملے تھے۔جبکہ 2019 پارلیمانی انتخابات میں یوپی میں 42 فی صد اور مغربی یوپی میں بی جے پی کو 50 فی صد ووٹ ملے تھے۔
راکیش ٹکیٹ کے والد مہندر سنگھ ٹکیٹ نہ صرف یوپی کے بلکہ ملک کے سب سے بڑے کسان رہنما تھے۔ مہیندر سنگھ ٹکیٹ جو بالیاں کھپ کے سربراہ تھے، بھارتیہ کسان یونین کے رہنما تھے، لیکن انہوں نے سیاسی پارٹیوں سے فاصلہ برقرار رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسان کے ہر طبقے میں ان کا الگ ادب و احترام ہے۔
ان کی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے وزراء ان کے گاؤں ان سے ملنے جاتے تھے۔ مہیندر سنگھ ٹکیٹ کی کسان تحریک اب بھی نظیر سمجھی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے بعد مہندر سنگھ ٹکیٹ مغربی یوپی میں سب سے زیادہ مقبول عام (غیر سیاسی) رہنما رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جاٹ برادری نے راکیش ٹکیٹ کے آنسو کو وقار کا ایشو بنا لیا۔
مہندر سنگھ ٹکیٹ کے بڑے بیٹے اور بالیاں کھپ کے چودھری بھارتیہ کسان یونین کے رہنما نریش ٹکیٹ نے حال ہی میں اجیت سنگھ کو ہرانے کی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ جو سیاسی تبدیلی کی جانب اشارہ ہے ۔علاوہ ازیں اجیت سنگھ ، اکھلیش یادو، اروند کیجریوال اور راہل گاندھی بھی ٹکیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست میں ایک نئے محاذ کی کال ہے۔
اس تناظر میں 28 جنوری کو غازی پور بارڈر پر جو کچھ ہوا اسے سیاسی طور پر حکمران جماعت کے لیے اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ مرکزی حکومت کے اس اقدام سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے اعلیٰ کمان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ بہت محنت کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس مغربی یو پی میں جاٹ ، گجر ، دیگر اعلیٰ ذات اور دلتوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
لیکن کسان تحریک کے بعد اس خطے کے جاٹ اور مسلمان ایک بار پھر سیاسی طور پر قریب آرہے ہیں۔جسے حکمراں جماعت نے نفرت کی سیاست کے تحت ان دونوں بڑی آبادیوں کو ایک دوسرے سے کافی دور کر دیا تھا۔ اب بھی مودی حکومت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کے مطالبات پر سنجیدگی سے مذاکرات کرنے کے بجائے احتجاج کو منتشر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔لیکن اب اس کے ہاتھ سے معاملہ کافی دور جاتا نظر آرہا ہے۔اس دوری کا مطلب مسلمانوں اور دیگر برادریوں کی قربت یقینی ہے۔جو بی جے پی اور اس کی سیاست کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔راکیش ٹکیٹ نے بھی یہ برجستہ کہہ دیا ہے کہ یہ لٹیروں کا آخری بادشاہ ثابت ہو گا ان کا اشارہ کدھر ہے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔