ETV Bharat / state

اسرار الحق مجاز کی برسی پر خاص

مجاز کی شاعری میں جو لطف رومانیت سے پیدا ہوا ہے اس نے ہمیشہ خواتین کے حلقے میں مجاز کو بے حد مقبول اور ہر دلعزیز رکھا، وہ خود کو شاعرِ محفلِ وفا اور مطرب بزمِ دلبراں کہتے تھے، آج اسی کی 66ویں برسی ہے۔

اسرار الحق مجاز کی برسی
اسرار الحق مجاز کی برسی
author img

By

Published : Dec 5, 2020, 3:01 AM IST

Updated : Dec 5, 2020, 4:02 AM IST

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکنتو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔

مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے، ان کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔

اسرار الحق مجاز کی برسی

مجاز لکھنوی 19 اکتوبر سنہ 1911 کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ نام اسرارالحق اور مجاز تخلص تھا، حصول تعلیم کے لیے لکھنو آئے اور یہاں سے ہائی سکول کیا۔

سنہ 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کرکے سنہ 1936 میں دہلی ریڈیو سٹیشن سے شائع ہونے والے 'آواز' کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

اسرارالحق مجاز کا نوابی شہر لکھنؤ سے گہرا تعلق رہا، یہاں کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ اپنے تخلص میں 'لکھنؤ' جوڑ لیا اور 'مجاز لکھنوی' کے نام سے مشہور و مشہور ہوگئے۔

مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے
مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سکالر عاطف حنیف نے بتایا کہ اردو زبان، اردو شاعری میں بہت سارے لوگ گزرے ہیں لیکن اسرارالحق مجاز کا الگ ہی مقام ہے کیونکہ انہیں ایک خاص شرف حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج مجاز کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے ہر خطے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کوئی بھی پروگرام ہو اس میں ان کا ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔

عاطف حنیف نے بتایا کہ مجاز کی شاعری میں دو الگ الگ طرح کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، رومانوی اور انقلاب۔ مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے۔

مجاز کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے
مجاز کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے

رومانیت کو ان کے کلام میں مرکزیت حاصل ہے، رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی اتنی شاید ہی کسی کے نصیب میں آئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ مجاز اپنے فن کے ذریعے اپنے افکار کو پیش کیا ہے، مجاز کی شاعری میں جو لطف رومانیت سے پیدا ہوا ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔

مجاز ہمیشہ خواتین کے حلقے میں بے حد مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔

عاطف حنیف نے کہا کہ آج پوری دنیا خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مجاز لکھنوی نے آج سے تقریباً 90 برس پہلے خواتین کے لیے بڑی بات کہہ دی تھی۔

اسرار الحق مجاز کی برسی
اسرار الحق مجاز کی برسی

انہوں نے لکھا کہ

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو ساجد بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزمانی لیتی تو اچھا تھا

مجاز کی نظم 'نذر علی گڑھ' مشہور دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ کا حصہ ہے، مثلاً

جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا

ہر سرد و سمن پر برسے گا، ہر دست و دامن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن میں برسےگا

مسٹر عاطف حنیف نے بتایا کہ مجاز لکھنوی کی سب سے بہترین نظم 'آوارہ' ہے جو سنہ 1953 میں بنی فلم 'ٹھوکر' میں مشہور گلوکار طلعت محمود کی مخملی آواز میں آج بھی سننے والوں پر الگ ہی تاثیر چھوڑتی ہے۔

انہوں نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

یہ شہر کی رات میں ناشاد و ناکارہ پھروں

جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں

غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل

پھر کسی شہناز لالا رخ کے کاشانے میں چل

یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

مجاز لکھنوی اردو کے اہم شاعر ہیں، غزلوں کے مقابلے انہوں نے نظمیں زیادہ لکھیں ہیں جن پر ان کی شہرت کا دارومدار ہے، وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر ہیں۔

اسرار الحق مجاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی جڑے رہے۔ مشہور نغمہ نگار جاوید اختر مجاز لکھنوی کے بھانجے ہیں۔

واضح رہے کہ لکھنؤ میں جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر کی قبر مجاز لکھنوی کے برابر میں موجود ہے۔

اسرار الحق مجاز کی وفات پانچ دسمبر سنہ 1955 میں محض 44 برس کی عمر میں لکھنؤ میں ہوئی تھی، جس کے بعد نشاط گنج کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

جنس الفت کا طلب گار ہوں میں

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکنتو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔

مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے، ان کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔

اسرار الحق مجاز کی برسی

مجاز لکھنوی 19 اکتوبر سنہ 1911 کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ نام اسرارالحق اور مجاز تخلص تھا، حصول تعلیم کے لیے لکھنو آئے اور یہاں سے ہائی سکول کیا۔

سنہ 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کرکے سنہ 1936 میں دہلی ریڈیو سٹیشن سے شائع ہونے والے 'آواز' کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

اسرارالحق مجاز کا نوابی شہر لکھنؤ سے گہرا تعلق رہا، یہاں کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ اپنے تخلص میں 'لکھنؤ' جوڑ لیا اور 'مجاز لکھنوی' کے نام سے مشہور و مشہور ہوگئے۔

مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے
مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سکالر عاطف حنیف نے بتایا کہ اردو زبان، اردو شاعری میں بہت سارے لوگ گزرے ہیں لیکن اسرارالحق مجاز کا الگ ہی مقام ہے کیونکہ انہیں ایک خاص شرف حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج مجاز کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے ہر خطے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کوئی بھی پروگرام ہو اس میں ان کا ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔

عاطف حنیف نے بتایا کہ مجاز کی شاعری میں دو الگ الگ طرح کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، رومانوی اور انقلاب۔ مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے۔

مجاز کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے
مجاز کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے

رومانیت کو ان کے کلام میں مرکزیت حاصل ہے، رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی اتنی شاید ہی کسی کے نصیب میں آئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ مجاز اپنے فن کے ذریعے اپنے افکار کو پیش کیا ہے، مجاز کی شاعری میں جو لطف رومانیت سے پیدا ہوا ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔

مجاز ہمیشہ خواتین کے حلقے میں بے حد مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔

عاطف حنیف نے کہا کہ آج پوری دنیا خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مجاز لکھنوی نے آج سے تقریباً 90 برس پہلے خواتین کے لیے بڑی بات کہہ دی تھی۔

اسرار الحق مجاز کی برسی
اسرار الحق مجاز کی برسی

انہوں نے لکھا کہ

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو ساجد بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزمانی لیتی تو اچھا تھا

مجاز کی نظم 'نذر علی گڑھ' مشہور دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ کا حصہ ہے، مثلاً

جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا

ہر سرد و سمن پر برسے گا، ہر دست و دامن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن میں برسےگا

مسٹر عاطف حنیف نے بتایا کہ مجاز لکھنوی کی سب سے بہترین نظم 'آوارہ' ہے جو سنہ 1953 میں بنی فلم 'ٹھوکر' میں مشہور گلوکار طلعت محمود کی مخملی آواز میں آج بھی سننے والوں پر الگ ہی تاثیر چھوڑتی ہے۔

انہوں نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

یہ شہر کی رات میں ناشاد و ناکارہ پھروں

جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں

غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل

پھر کسی شہناز لالا رخ کے کاشانے میں چل

یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

مجاز لکھنوی اردو کے اہم شاعر ہیں، غزلوں کے مقابلے انہوں نے نظمیں زیادہ لکھیں ہیں جن پر ان کی شہرت کا دارومدار ہے، وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر ہیں۔

اسرار الحق مجاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی جڑے رہے۔ مشہور نغمہ نگار جاوید اختر مجاز لکھنوی کے بھانجے ہیں۔

واضح رہے کہ لکھنؤ میں جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر کی قبر مجاز لکھنوی کے برابر میں موجود ہے۔

اسرار الحق مجاز کی وفات پانچ دسمبر سنہ 1955 میں محض 44 برس کی عمر میں لکھنؤ میں ہوئی تھی، جس کے بعد نشاط گنج کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

جنس الفت کا طلب گار ہوں میں

Last Updated : Dec 5, 2020, 4:02 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.