ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے نشاط گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنؤ چیپڑ نے سرسید ڈے کے موقع پر پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ اس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر شکیل احمد قدوائی نے استقبالیہ خطبہ میں سرسید احمد خان کی تحریک پر روشنی ڈالی، وہیں ایسوسی ایشن کے سیکریٹری محمد شعیب نے سالانہ رپورٹ پیش کی۔
اس موقع پر دہلی ہائی کورٹ کے سبکدوش جسٹس سہیل احمد صدیقی نے کہا کہ آج سے 15 برس قبل ہم نے ایک تحریک شروع کی تھی کہ سرسید احمد خان کو بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا جائے۔ اس کے لیے متعدد خطوط حکومت و صدر جمہوریہ کو ارسال کیے گئے تھے، تاہم کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ جب کرکٹ کے میدان میں سچن تندولکر، تعلیمی میدان میں مدن موہن مالویہ، استاد بسم اللہ خان کو شہنائی کے لیے بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا جا سکتا ہے تو سر سید احمد خان کو بھارت رتن کے اعزاز سے کیوں نہیں نوازا جا سکتا۔ سر سید احمد خان نے پوری دنیا میں تعلیم کی شہنائی بجائی۔ انہوں نے اپنے علم سے دنیا کو روشن کیا۔ ان کو بھی بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک سرسید احمد خان کو بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا نہیں جاتا ہے تب تک تمام علیگ برادران سے گزارش ہے کہ ان کو 'ہند رتن' سے یاد کریں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بھارت کا ہندو طبقہ سب سے زیادہ سیکولر ہے۔ اگر یہاں کا ہندو طبقہ سیکولر نہ ہوتا تو یہاں مسلمانوں کا رہنا مشکل ہو جاتا۔ مسلم قوم اپنی پسماندگی کی وجوہات تلاش کرے، اس کو دور کرے اور اپنی پسماندگی کا الزام کسی دوسری قوم پر ڈالنے کے بجائے مثبت فکر پیدا کرے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ جو بھی نئی چیز ہوتی ہے، ابتدائی دور میں مسلمان اس کی مخالفت کرتے ہیں اور بعد میں اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے جب جدید تعلیم کی تحریک شروع کی، اس وقت بھی ان کے خلاف متعدد فتوے سامنے آئے لیکن آج انہیں پر سبھی لوگوں کو فخر بھی ہے۔
مزید پڑھیں:سر سید کے یوم پیدائش پر ہیلتھ کیمپ کے ساتھ کھانے کی تقسیم
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم قوم کی علمی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ علم کو دو خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک دینی علوم اور دوسرا دنیاوی علوم، جبکہ علم اللہ کا نور ہے اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے فتوے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ جن لوگوں کو بینک سے سود حاصل ہوتا ہے وہ اپنے ذاتی اخراجات کے لیے اسے استعمال نہ کریں بلکہ اسے مفلس، بے سہارا کی تعلیم و تربیت پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لہذا تمام علیگ برادران سے گزارش ہے کہ جن لوگوں کو ایسی رقم میسر ہو رہی ہے وہ سرسید کی تحریک کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔