ETV Bharat / state

تہذیب کے شہر لکھنؤ نے فلمی دنیا کو شکیل بدایونی جیسی ہستی دی - محض 53 برس کی عمر میں 20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا

تہذیب کے شہر لکھنؤ نے ہندی فلمی دنیا کو کئی مشہور ہستیاں دی ہیں۔ ان میں سے ایک نغمہ نگار شکیل بدایوں کا نام بھی آتا ہے ۔شکیل احمد ،تین اگست 1916 کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔

تہذیب کے شہر لکھنؤ نے فلمی دنیا کو شکیل بدایونی جیسی ہستی دی
تہذیب کے شہر لکھنؤ نے فلمی دنیا کو شکیل بدایونی جیسی ہستی دی
author img

By

Published : Apr 19, 2020, 8:30 PM IST

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں

مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں

تہذیب کے شہر لکھنؤ نے ہندی فلمی دنیا کو کئی مشہور ہستیاں دی ہیں۔ ان میں سے ایک نغمہ نگار شکیل بدایوں کا نام بھی آتا ہے ۔شکیل احمد ،تین اگست 1916 کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔

شکیل بدایونی کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔

بدایوں میں 3 اگست 1916 کو جب شکیل احمد کی پیدائش ہوئی تو شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوگا کہ آزاد بھارت میں یہ شہر اپنے اس نونہال کے نام سے جانا جائے گا جو بڑا ہوکر ہندی فلم دنیا کی معروف شخصیت کہلائے گا۔

اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شکیل 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔شکیل نے علی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج ، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔

شکیل احمد علی گڑھ سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946 ء تک مقیم رہے۔ اس کے بعد وہ فروری1946 ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔ اے آر کاردار کے اصرارپر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے 1940 میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں جو ان کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔

شکیل بدایونی ایسے نغمہ نگار تھے جن کی شہرت اس وقت کے کسی بڑے فلمی ستارہ سے کم نہیں تھی۔ شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے علی گڑھ میں قیام کے دوران جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پاکر شکیل بدایونی نے سپلائی افسر کی نوکری چھوڑ دی۔ممبئی میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور فلمساز اے آر کاردار اور عظیم موسیقار نوشاد سے ہوئی۔

نوشاد کے کہنے پر شکیل نے 'ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے' گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو بہت پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراَ کاردار صاحب کی 'درد' کے لیے سائن کر لیا گیا۔ سال 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم 'درد' کے گیت 'افسانہ لکھ رہی ہوں' کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔

شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر دو سو سے زائد نغمے لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔

دلاری (1949)، دیدار (1951)، مدر انڈیا (1957)، چودہویں کا چاند (1960)، مغلِ اعظم ( 1960)، گنگا جمنا ( 1961) صاحب بی بی اور غلام ( 1962)، میرے محبوب ( 1963) دو بدن ( 1966) جیسی سپر ہٹ فلموں میں شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچا دی ۔

شکیل بدایوں کو 1961 میں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کا چاند کے نغمے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو’ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد 1962 میں فلم گھرانہ کے گانے حسن والے تیرا جوا ب نہیں کے لئے پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ 1963 میں سسپینس سے بھرپور فلم بیس سال بعد کے نغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کے لئے انہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔

شکیل کو شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوست احباب کے ساتھ جب بھی پکنک پر جاتے توہ وہ بیڈمنٹن کے ساتھ ساتھ پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔ نوشاد، محمد رفیع اور کبھی کبھار جانی واکر بھی ان کے ساتھ پتنگبازی کے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے۔

محبت کی راہوں میں شکیل اپنے چاہنے والوں کو تو سنبھلنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن محبت اور شہرت میں خود وہ ڈگمگا گئے۔ شکیل کے ناقدین کو ان سے اسی بات کی شکایت رہی کہ واہ واہ اور سبحان اللہ کے مسلسل شور نے انہیں اسی شاعری تک محدود کر دیا جس میں لوگوں کو لبھانے کا فن تھا اور انہیں زندگی کے کئی اہم اقدار کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں دیا. جس دور میں ان کے معاصر شاعر اپنی شاعری میں ترقی پسندی کے نئے تیور تلاش رہے تھے، شکیل محبت میں ہی آنکھ مچولياں کرتے رہے۔

ممکن ہے شکیل کے ناقدین کی بات میں کافی دم ہو لیکن شکیل کے بارے میں یہ ایک طرفہ سوچ لگتی ہے. اپنے زمانے کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ یافتہ علی سردار جعفری' شکیل کے بارے میں کہتے ہیں- 'شکیل غزل کہنا بھی جانتے ہیں اور اسے گانا بھی۔ علی سردار جعفری مزید کہتے ہیں ، میں اپنی ادبی-زندگی میں شکیل سے دور رہا ہوں لیکن ان کی غزل سے ہمیشہ قربت رہی ہے۔ یہ ایک ایسی لطافت ہے جو دل میں اتر جاتی ہے ۔

ان کے معاصر شاعر، ناقدین اور مبصرین کہ یہ کہنا تھا کہ شکیل نے غزل اور گیتوں کی دنیا سے باہر آکر دوسری زیادہ اثر دار شیلیوں میں اپنے کمالات نہیں دکھائے ۔ لیکن شکیل کے خیالات اور سوچ فکر مختلف تھی۔ شکیل کا اندازبیان کروڑوں بھارتیوں کے لیے سکون کاباعث تھا۔ فلمی دنیا میں ان کے گیت سر چڑھ کر بولتے تھے. ہندوستانی کے ساتھ ساتھ، برج اور اودھی زبان میں رچی-بسی لوک گیت روایت کا بھی انہوں نے خوب تر استعمال کیا۔فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غمہ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم 1969 میں لکھی گئی آپ بیتی 2014 میں شائع ہوئی۔

شکیل کو ذیابطیس کی موروثی شکایت تھی۔ محض 53 برس کی عمر میں 20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسری بہت سی مشہور شخصیات کی طرح 2010 میں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں

مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں

تہذیب کے شہر لکھنؤ نے ہندی فلمی دنیا کو کئی مشہور ہستیاں دی ہیں۔ ان میں سے ایک نغمہ نگار شکیل بدایوں کا نام بھی آتا ہے ۔شکیل احمد ،تین اگست 1916 کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔

شکیل بدایونی کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔

بدایوں میں 3 اگست 1916 کو جب شکیل احمد کی پیدائش ہوئی تو شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوگا کہ آزاد بھارت میں یہ شہر اپنے اس نونہال کے نام سے جانا جائے گا جو بڑا ہوکر ہندی فلم دنیا کی معروف شخصیت کہلائے گا۔

اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شکیل 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔شکیل نے علی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج ، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔

شکیل احمد علی گڑھ سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946 ء تک مقیم رہے۔ اس کے بعد وہ فروری1946 ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔ اے آر کاردار کے اصرارپر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے 1940 میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں جو ان کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔

شکیل بدایونی ایسے نغمہ نگار تھے جن کی شہرت اس وقت کے کسی بڑے فلمی ستارہ سے کم نہیں تھی۔ شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے علی گڑھ میں قیام کے دوران جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پاکر شکیل بدایونی نے سپلائی افسر کی نوکری چھوڑ دی۔ممبئی میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور فلمساز اے آر کاردار اور عظیم موسیقار نوشاد سے ہوئی۔

نوشاد کے کہنے پر شکیل نے 'ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے' گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو بہت پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراَ کاردار صاحب کی 'درد' کے لیے سائن کر لیا گیا۔ سال 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم 'درد' کے گیت 'افسانہ لکھ رہی ہوں' کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔

شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر دو سو سے زائد نغمے لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔

دلاری (1949)، دیدار (1951)، مدر انڈیا (1957)، چودہویں کا چاند (1960)، مغلِ اعظم ( 1960)، گنگا جمنا ( 1961) صاحب بی بی اور غلام ( 1962)، میرے محبوب ( 1963) دو بدن ( 1966) جیسی سپر ہٹ فلموں میں شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچا دی ۔

شکیل بدایوں کو 1961 میں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کا چاند کے نغمے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو’ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد 1962 میں فلم گھرانہ کے گانے حسن والے تیرا جوا ب نہیں کے لئے پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ 1963 میں سسپینس سے بھرپور فلم بیس سال بعد کے نغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کے لئے انہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔

شکیل کو شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوست احباب کے ساتھ جب بھی پکنک پر جاتے توہ وہ بیڈمنٹن کے ساتھ ساتھ پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔ نوشاد، محمد رفیع اور کبھی کبھار جانی واکر بھی ان کے ساتھ پتنگبازی کے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے۔

محبت کی راہوں میں شکیل اپنے چاہنے والوں کو تو سنبھلنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن محبت اور شہرت میں خود وہ ڈگمگا گئے۔ شکیل کے ناقدین کو ان سے اسی بات کی شکایت رہی کہ واہ واہ اور سبحان اللہ کے مسلسل شور نے انہیں اسی شاعری تک محدود کر دیا جس میں لوگوں کو لبھانے کا فن تھا اور انہیں زندگی کے کئی اہم اقدار کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں دیا. جس دور میں ان کے معاصر شاعر اپنی شاعری میں ترقی پسندی کے نئے تیور تلاش رہے تھے، شکیل محبت میں ہی آنکھ مچولياں کرتے رہے۔

ممکن ہے شکیل کے ناقدین کی بات میں کافی دم ہو لیکن شکیل کے بارے میں یہ ایک طرفہ سوچ لگتی ہے. اپنے زمانے کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ یافتہ علی سردار جعفری' شکیل کے بارے میں کہتے ہیں- 'شکیل غزل کہنا بھی جانتے ہیں اور اسے گانا بھی۔ علی سردار جعفری مزید کہتے ہیں ، میں اپنی ادبی-زندگی میں شکیل سے دور رہا ہوں لیکن ان کی غزل سے ہمیشہ قربت رہی ہے۔ یہ ایک ایسی لطافت ہے جو دل میں اتر جاتی ہے ۔

ان کے معاصر شاعر، ناقدین اور مبصرین کہ یہ کہنا تھا کہ شکیل نے غزل اور گیتوں کی دنیا سے باہر آکر دوسری زیادہ اثر دار شیلیوں میں اپنے کمالات نہیں دکھائے ۔ لیکن شکیل کے خیالات اور سوچ فکر مختلف تھی۔ شکیل کا اندازبیان کروڑوں بھارتیوں کے لیے سکون کاباعث تھا۔ فلمی دنیا میں ان کے گیت سر چڑھ کر بولتے تھے. ہندوستانی کے ساتھ ساتھ، برج اور اودھی زبان میں رچی-بسی لوک گیت روایت کا بھی انہوں نے خوب تر استعمال کیا۔فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غمہ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم 1969 میں لکھی گئی آپ بیتی 2014 میں شائع ہوئی۔

شکیل کو ذیابطیس کی موروثی شکایت تھی۔ محض 53 برس کی عمر میں 20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسری بہت سی مشہور شخصیات کی طرح 2010 میں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.