ریاست اترپردیش کے رامپور میں واقع سہاگ میرج ہال میں رامپور کے علماء، ادباء اور دانشواران کی ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں رامپور کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے والے مقامی سطح کے اخبار نکالے جانے پر غوروخوض کیا گیا۔ جہاں سماج کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر تبادلہ خیال کرکے ان سے نمٹنے کے لئے راہ عمل متعین کرنے کی جانب متوجہ کیا گیا۔
مقررین نے پر خصوصی طور پر میڈیا کی اہمیت و افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے رامپور سے اردو کا معیاری اخبار نکالے جانے پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر معروف مصنف اور وکیل شوکت علی خان نے کہا کہ اردو تہذیب و ثقافت کے لئے دہلی اور لکھنؤ کے بعد رامپور کو تیسرا دبستان کے طور جانا جاتا ہے۔ لیکن آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب اسی رامپور سے اردو ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اردو کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر گھر تک اردو کا معیاری اخبار پہنچایا جائے۔
اس موقع پر صحافی قاسم سید نے صحت مند سماج کی تعمیر میں میڈیا کے رول پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، جو حکومت اور عوام کے درمیان ترجمان کا کام کرتا ہے۔ مظلوموں اور کمزوروں کی آواز اس کے توسط سے ایوان اقتدار تک پہنچتی ہے۔ بشرطیکہ وہ درباری و سرکاری کا رول ادا نہ کرے۔ اعتدال و توازن کے ساتھ سماج کی رہنمائی کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو میڈیا شدید دباؤ میں ہے اور اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ آوازیں ضرور ایسی ہیں جو حق کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہیں۔
قاسم سید نے کہا کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو میڈیا پر اسلاموفوبیا سوار ہے اور مسلمانوں کو ویلن کے طور پر پیش کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے، ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتا ہے۔
آج کی اس خصوصی نشست کے کنوینر محمد مسلم غازی نے ای ٹی وی بھارت سے اپنی خصوصی بات چیت میں کہا کہ عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر نے رامپور سے کامریڈ اخبار نکال کر اپنی صحافت کے ذریعہ ہی تحریک آزادی کا صور پھونکا تھا۔ موجودہ حالات میں ایک مرتبہ پھر یہاں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ اردو کا کوئی معیاری اخبار نکالا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کرناٹک: گئوکشی کے نئے قانون کے تحت پہلی گرفتاری
اس موقع پر امام جامع مسجد مفتی محبوب علی کے ساتھ ہی جماعت اسلامی رامپور کے سابق امیر مولانا عبدالخالق ندوی، جمیعت علماء کے ضلع صدر مولانا اسلم جاوید قاسمی، شیعہ امام مولانا محمد زماں باقری کے علاوہ کثیر تعداد میں اہل علم و دانش نے شرکت کی۔ مفتی شہر مولانا محبوب علی کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔