'مسیحا کون' کتاب کے مصنف پروفیسر عارف الاسلام کے مطابق مولانا آزاد اور علی گڑھ تحریک کا رشتہ منفی رشتہ ہے۔
مولانا آزاد نہیں چاہتے تھے جدید ادارے بنیں، وہ مدرسے کے حامی تھے، انہوں نے اے ایم یو کے قیام کی بھی مخالفت کی۔ اس کتاب کی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مولانا آزاد کے نام سے ایک عظیم لائبریری بھی موجود ہیں۔
کتاب کے مصنف پروفیسر عارف الاسلام نے کہا کہ مولانا آزاد اور علی گڑھ تحریک کا رشتہ ایک منفی رشتہ ہے جو میں کافی اصل چیزیں پڑھنے کے بعد تیجے پر پہنچا ہوں۔
مولانا آزاد نہیں چاہتے تھے جدید ادارے بنے وہ مدرسوں کے حامی تھے، انہوں نے اے ایم یو کے قیام کی مخالفت کی۔
عارف السلام نے مزید کہا کہ میری طلباء سے اور نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اپنی تحقیق کرے اور اصل کتابیں بھی پڑھیں، نتیجے نکالیں۔ میری یا کسی کی بات پر نہ جائیں۔
انہوں نے زندگی بھر مخالفت کی وہ اسی لیے پیدا کیا گئے تھے اس مقصد کے لیے الہلال اور البلاغ کلکتہ سے نکلتا تھا، اس کو کانگریس مالیات کرتی تھی ان کے پاس کون سا پیسہ تھا۔
علی گڑھ جامعہ مکتبہ کے انچارج حافظ محمد صابر نے بتایا کہ پہلے بھی چھپی ہے یہ کتاب اور یہ تیسرا ایڈیشن ہے، اس سے قبل دونوں ایڈیشن ختم ہوچکے ہیں۔ ہر طرح کی کتابیں بکتی ہے چاہے حمایت میں ہو یا مخالفت میں ہمارا کام بیچنے کا ہے، کتاب اچھی چھپی ہے۔
کتاب کو پڑھنے والے اے ایم یو کے طلبہ رہنما عامر منٹو نے بتایا کہ یہ کتاب بہت اچھی ہے، اس نسبت سے بھی کہ یہ کتاب آزاد بھارت میں پہلی کتاب ہے، جس نے یہ موازنہ کیا بہت سارے لوگوں نے اس پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ خود الیاس اعظمی صاحب کا جائزہ ہے، جس میں بہت خاص بات کہی کی میں اس کتاب کے نام سے متفق نہیں ہوں لیکن اس کتاب کی تعریف کی ہے۔
مزید پڑھیں:
اے ایم یو انتظامیہ نے دو ڈاکٹروں کی تقرری کو منسوخ کردیا؟
جس پارٹی کے اوپر بٹوارے کا الزام ہے انڈین نیشنل کانگریس پر اس پارٹی کے ایک ادنیٰ سے رکن کی، اتنی عظیم شخصیت کا موازنہ کرنا ان کا مقابلہ کرنا، اتنا تو الیاس اعظمی صاحب نے کہا میں اس سے متفق نہیں کرتا تو اسی بات سے اس کتاب کا خاصیت پتہ چلتی ہے۔