ETV Bharat / state

'اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو کانگریس نے چوٹ پہنچائی'

author img

By

Published : Sep 22, 2020, 2:01 PM IST

حفیظ نعمانی (صحافی) نے اپنے اخبار ندائے ملت (ہفتہ روزہ اخبار) 1965 میں ایک خصوصی ایڈیشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر شائع کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں نو مہینے جیل میں بھی رہنا پڑا تھا۔ خصوصی ایڈیشن میں حفیظ نعمانی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بارے میں کئی سنسنی خیز انکشافات کیے تھے۔

'اے ایم یو سے اقلیتی کردار 1965 میں کانگریس نے چھینا'
'اے ایم یو سے اقلیتی کردار 1965 میں کانگریس نے چھینا'

سنہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او) موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی شکل میں آئی پارلیمانی ایکٹ کے مطابق، جس کے لیے ملک کے مسلمانوں نے سنہ 1920 میں تیس لاکھ روپے کا چندہ کرکے برطانوی حکومت کو دیا تھا جس کے بعد حکومت نے اے ایم یو کو خود مختار مسلم اقلیتی ادارہ تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم چھگلہ نے کہا تھا کہ اگر میں آگے بھی وزیر تعلیم رہا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مسلم لفظ ہٹا دوں گا۔

ندائے ملت
ندائے ملت

سنہ 1965 میں کانگریس نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر حملہ کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے حفیظ نعمانی (صحافی) نے اپنے ہفت نامہ اخبار میں ذکر کرتے ہوئے ایک خصوصی ایڈیشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اے ایم یو اپنے اقلیتی کردار کی لڑائی مسلسل لڑ رہا ہے۔

خصوصی گفتگو میں اے ایم یو کے سابق طالب علم اور اسٹوڈنٹ لیڈر محمد عامر (منٹوی) نے بتایا حفیظ نعمانی صاحب بےباک صحافی تھے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا اخبار ندائے ملت عام و خاص میں کافی مقبول تھا۔ سنہ 1965 میں جب علی گڑھ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حملہ ہوا تو اس کے بعد انہوں نے اپنے اخبار ندائے ملت میں ایک خاص ایڈیشن چھاپا۔ جس کا نام ہی انہوں نے ”علی گڑھ نمبر” رکھا۔ اس خصوصی ایڈیشن کی وجہ سے اس وقت کی حکومت نے ان کو حراست میں لے کر جیل بھیج دیا۔ اس اخبار کے مواد کو آج بھی جب ہم پڑھتے ہیں تو حالات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے حالات کیا تھے۔

'اے ایم یو سے اقلیتی کردار 1965 میں کانگریس نے چھینا'

محمد عامر (منٹوی) نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے خصوصی ایڈیشن میں آخر ایسا کیا لکھا تھا جس کی وجہ سے حکومت خوفزدہ ہوگئی۔ صحافی کو اس وقت کی حکومت نے نو ماہ تک جیل میں قید رکھا۔

سنہ 1965 میں جب ایم اے او کالج کو یونیورسٹی بنانے کی تحریک شروع ہوئی تو انگریز یونیورسٹی تو بنانے کو تیار تھے لیکن کالج کمیٹی کا یہ مطالبہ تھا کہ یونیورسٹی خود مختار ہوگی، انگریز مسلمانوں کو خود مختار ادارہ نہیں دینا چاہ رہے تھے۔انہوں نے حیلہ بہانہ کرکے ایک خاص شرط رکھی جو ان کے حساب سے اس وقت مسلمان پوری نہیں کر سکتے تھے۔ برطانوی حکومت نے یہ شرط رکھی کہ تیس لاکھ روپیے ہمارے پاس جمع کریں سکیورٹی کے طور پر تاکہ ہمیں یقین ہو جائے آپ یونیورسٹی چلانے کے لائق ہیں۔ سنہ 1920 میں بھارت کے مسلمانوں نے تیس لاکھ روپیہ چندہ کرکے سکیورٹی کی شکل میں جمع کروائے تب جاکر یونیورسٹی کو اقلیتی کا درجہ ملا تھا۔

کانگریس نے ہم سے ہمارے اقلیتی کردار کو چھینا تھا۔ سنہ 1965 سے وہی تحریک چلی آ رہی ہے۔ بعد میں اندرا گاندھی نے کچھ چیزیں دیں اور اب کورٹ میں کیس زیر التواء ہے اور انشاءاللہ ہمیں امید ہے ہم سپریم کورٹ سے بھی جیتیں گے اور قیامت تک اے ایم یو مسلم اقلیتی ادارہ ہی رہے گا۔

سنہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او) موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی شکل میں آئی پارلیمانی ایکٹ کے مطابق، جس کے لیے ملک کے مسلمانوں نے سنہ 1920 میں تیس لاکھ روپے کا چندہ کرکے برطانوی حکومت کو دیا تھا جس کے بعد حکومت نے اے ایم یو کو خود مختار مسلم اقلیتی ادارہ تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم چھگلہ نے کہا تھا کہ اگر میں آگے بھی وزیر تعلیم رہا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مسلم لفظ ہٹا دوں گا۔

ندائے ملت
ندائے ملت

سنہ 1965 میں کانگریس نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر حملہ کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے حفیظ نعمانی (صحافی) نے اپنے ہفت نامہ اخبار میں ذکر کرتے ہوئے ایک خصوصی ایڈیشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اے ایم یو اپنے اقلیتی کردار کی لڑائی مسلسل لڑ رہا ہے۔

خصوصی گفتگو میں اے ایم یو کے سابق طالب علم اور اسٹوڈنٹ لیڈر محمد عامر (منٹوی) نے بتایا حفیظ نعمانی صاحب بےباک صحافی تھے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا اخبار ندائے ملت عام و خاص میں کافی مقبول تھا۔ سنہ 1965 میں جب علی گڑھ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حملہ ہوا تو اس کے بعد انہوں نے اپنے اخبار ندائے ملت میں ایک خاص ایڈیشن چھاپا۔ جس کا نام ہی انہوں نے ”علی گڑھ نمبر” رکھا۔ اس خصوصی ایڈیشن کی وجہ سے اس وقت کی حکومت نے ان کو حراست میں لے کر جیل بھیج دیا۔ اس اخبار کے مواد کو آج بھی جب ہم پڑھتے ہیں تو حالات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے حالات کیا تھے۔

'اے ایم یو سے اقلیتی کردار 1965 میں کانگریس نے چھینا'

محمد عامر (منٹوی) نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے خصوصی ایڈیشن میں آخر ایسا کیا لکھا تھا جس کی وجہ سے حکومت خوفزدہ ہوگئی۔ صحافی کو اس وقت کی حکومت نے نو ماہ تک جیل میں قید رکھا۔

سنہ 1965 میں جب ایم اے او کالج کو یونیورسٹی بنانے کی تحریک شروع ہوئی تو انگریز یونیورسٹی تو بنانے کو تیار تھے لیکن کالج کمیٹی کا یہ مطالبہ تھا کہ یونیورسٹی خود مختار ہوگی، انگریز مسلمانوں کو خود مختار ادارہ نہیں دینا چاہ رہے تھے۔انہوں نے حیلہ بہانہ کرکے ایک خاص شرط رکھی جو ان کے حساب سے اس وقت مسلمان پوری نہیں کر سکتے تھے۔ برطانوی حکومت نے یہ شرط رکھی کہ تیس لاکھ روپیے ہمارے پاس جمع کریں سکیورٹی کے طور پر تاکہ ہمیں یقین ہو جائے آپ یونیورسٹی چلانے کے لائق ہیں۔ سنہ 1920 میں بھارت کے مسلمانوں نے تیس لاکھ روپیہ چندہ کرکے سکیورٹی کی شکل میں جمع کروائے تب جاکر یونیورسٹی کو اقلیتی کا درجہ ملا تھا۔

کانگریس نے ہم سے ہمارے اقلیتی کردار کو چھینا تھا۔ سنہ 1965 سے وہی تحریک چلی آ رہی ہے۔ بعد میں اندرا گاندھی نے کچھ چیزیں دیں اور اب کورٹ میں کیس زیر التواء ہے اور انشاءاللہ ہمیں امید ہے ہم سپریم کورٹ سے بھی جیتیں گے اور قیامت تک اے ایم یو مسلم اقلیتی ادارہ ہی رہے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.