اس موقع پر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ ادیب اور شاعر چونکہ اقتدار کے ساتھ نہیں ہوتا اس لیے اس کے حصے میں تختہ دار آتا ہے۔
" کچھ اور" شعری مجموعے کی رسم اجراء - book release
بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی جانب سے قطر سے تشریف لائے معروف شاعر افتخار راغب کی کتاب "کچھ اور" کی رسم اجرا عمل میں آئی اور ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا
" کچھ اور" شعری مجموعے کی رسم اجراء
اس موقع پر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ ادیب اور شاعر چونکہ اقتدار کے ساتھ نہیں ہوتا اس لیے اس کے حصے میں تختہ دار آتا ہے۔
Intro:
Body:بائٹ ۱ پروفیسر آفتاب احمد آفاق
بائٹ ۲ افتخار راغب
مائک پر کلام سناتے ہوئے۔ افتخار راغب
" کچھ اور" شعری مجموعے کی رسم اجراء اور شعری نشست۔
ادیب اور شاعر چونکہ اقتدار کے ساتھ نہیں ہوتا اس لیے اس کے حصے میں تختہ دار آتا ہے ۔ یہ کہنا تھا پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا سنیچرکو شعبہ اردو بنارس ہندویونیورسٹی میں شعبے کی جانب سے قطر سے تشریف لائے معروف شاعر افتخار راغب کی کتاب "کچھ اور" کی رسم اجرا ادا کی گئی اور اس موقع پر ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اس موقع پر بولتے ہوئے ہوئے ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی نے کہا آج ہم لوگ ادب کے نہایت پرفتن دور سے گزر رہے ہیں۔ ادب کے اندر مادیت پیدا ہو گئی ہے۔ اصل میں ادب ہمارے اندر عرفان ذات کا تصور پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی غیر مقیم ہندوستانی شاعر کی کسی کتاب کا اجراء شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے افتخار صاحب کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ افتخار راغب صاحب پیشے سے انجینئر ہیں لیکن ان کا ادبی شوق نہایت عمدہ ہے وہ قطر اور ہندوستان کے ادبی پروگراموں میں مسلسل شریک ہوتے ہیں۔ آنھوں نے بتایا کہ افتخار راغب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور آج کے اس مادہ پرستی کے زمانے میں وہ مادیت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے افتخار عارف کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ افتخار عارف کی شاعری میں سادگی ہے لیکن وہ مشکل سے مشکل بات کو نہایت آسانی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں ان کے کلام میں میں تعمیری فکر اور بصیرت ہے افتخار اپنی شاعری میں بتاتے ہیں کہ زندگی کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افتخار راغب کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ آج بھی اخلاقی قدروں کو زندہ رکھنے والےلوگ موجود ہیں۔
افتخار راغب سے جب گفتگو کی گئی اور ان سے قطر کے ادبی منظرنامے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ قطر کی کی ادبی فضا نہایت بہتر ہے وہاں پر متعدد د ادبی تنظیمی سرگرم ہیں جو پابندی کے ساتھ ادبی مجالس کا انعقاد کرتی ہیں۔ شعری نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے شعرا اس میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کرتے ہیں۔ ان نشستوں میں شعراء کو سننے سنانے کا اچھا موقع کا ملتا ہے۔
پروگرام کا آغاز پنڈت مدن موہن مالویہ جی کے مجسمے کی گل پوشی سے ہوا۔ ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں نے جامعہ کا گیت سنایا۔ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صاحب نے مہمانوں کا استقبال کیا کیا استقبال کے بعد مہمانوں کی گل پوشی کی گئی۔
محی الدین، نہال جالب، رشی کمار ، قاسم انصاری، جاوید انور وغیرہ نے کتاب پر پنے تاثرات پیش کیے۔
پروگرام کی صدارت پروفیسر شہاب عنایت ملک ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج آج اردو کے خلاف پورے ملک میں سازش چل رہی ہے۔ اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن آفتاب احمد آفاقی جیسے لوگ اس کو ترقی کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
شعری نشست میں افتخار راغب کے علاوہ وہ کبیر اجمل، خالد جمال، مائل انصاری اور ڈاکٹر محمد عقیل نے اپنے تازہ کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
Conclusion:
Body:بائٹ ۱ پروفیسر آفتاب احمد آفاق
بائٹ ۲ افتخار راغب
مائک پر کلام سناتے ہوئے۔ افتخار راغب
" کچھ اور" شعری مجموعے کی رسم اجراء اور شعری نشست۔
ادیب اور شاعر چونکہ اقتدار کے ساتھ نہیں ہوتا اس لیے اس کے حصے میں تختہ دار آتا ہے ۔ یہ کہنا تھا پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا سنیچرکو شعبہ اردو بنارس ہندویونیورسٹی میں شعبے کی جانب سے قطر سے تشریف لائے معروف شاعر افتخار راغب کی کتاب "کچھ اور" کی رسم اجرا ادا کی گئی اور اس موقع پر ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اس موقع پر بولتے ہوئے ہوئے ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی نے کہا آج ہم لوگ ادب کے نہایت پرفتن دور سے گزر رہے ہیں۔ ادب کے اندر مادیت پیدا ہو گئی ہے۔ اصل میں ادب ہمارے اندر عرفان ذات کا تصور پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی غیر مقیم ہندوستانی شاعر کی کسی کتاب کا اجراء شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے افتخار صاحب کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ افتخار راغب صاحب پیشے سے انجینئر ہیں لیکن ان کا ادبی شوق نہایت عمدہ ہے وہ قطر اور ہندوستان کے ادبی پروگراموں میں مسلسل شریک ہوتے ہیں۔ آنھوں نے بتایا کہ افتخار راغب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور آج کے اس مادہ پرستی کے زمانے میں وہ مادیت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے افتخار عارف کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ افتخار عارف کی شاعری میں سادگی ہے لیکن وہ مشکل سے مشکل بات کو نہایت آسانی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں ان کے کلام میں میں تعمیری فکر اور بصیرت ہے افتخار اپنی شاعری میں بتاتے ہیں کہ زندگی کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افتخار راغب کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ آج بھی اخلاقی قدروں کو زندہ رکھنے والےلوگ موجود ہیں۔
افتخار راغب سے جب گفتگو کی گئی اور ان سے قطر کے ادبی منظرنامے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ قطر کی کی ادبی فضا نہایت بہتر ہے وہاں پر متعدد د ادبی تنظیمی سرگرم ہیں جو پابندی کے ساتھ ادبی مجالس کا انعقاد کرتی ہیں۔ شعری نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے شعرا اس میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کرتے ہیں۔ ان نشستوں میں شعراء کو سننے سنانے کا اچھا موقع کا ملتا ہے۔
پروگرام کا آغاز پنڈت مدن موہن مالویہ جی کے مجسمے کی گل پوشی سے ہوا۔ ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں نے جامعہ کا گیت سنایا۔ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صاحب نے مہمانوں کا استقبال کیا کیا استقبال کے بعد مہمانوں کی گل پوشی کی گئی۔
محی الدین، نہال جالب، رشی کمار ، قاسم انصاری، جاوید انور وغیرہ نے کتاب پر پنے تاثرات پیش کیے۔
پروگرام کی صدارت پروفیسر شہاب عنایت ملک ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج آج اردو کے خلاف پورے ملک میں سازش چل رہی ہے۔ اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن آفتاب احمد آفاقی جیسے لوگ اس کو ترقی کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
شعری نشست میں افتخار راغب کے علاوہ وہ کبیر اجمل، خالد جمال، مائل انصاری اور ڈاکٹر محمد عقیل نے اپنے تازہ کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
Conclusion: