اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیا مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کو لیکرانتہائی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہا ہے۔ اس کی متعصبانہ رپورٹنگ کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کاروائی کے لیے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔تبلیغی جماعت کے خلاف ہو رہے میڈیا ٹرائل پر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے پٹیشن دائر کی ہے۔
اس سلسلہ میں جمعیة علمأ ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے حالیہ دنوں میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہو رہی مسلسل منفی رپورٹنگ پر اپنے گہرے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تر درخواستوں اور مطالبوں کے باوجود ٹی وی چینلز نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔
اس کو لیکر ہم حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نفرت بونے والے اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، مگر افسوس ہمارے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ہم اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں جو زہر بورہا ہے وہ کوروناوائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں تبلیغی مرکز کو لیکر میڈیا نے تو اخلاق وقانون کی تمام حدیں توڑدی ہیں اب اس کی وجہ سے اکثریت کے ذہنوں میں یہ گرہ مضبوط ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی کوئی بیماری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کس قدر مضحکہ خیز الزام ہے کہ مگر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لوگ اس طرح کی چیزوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں درحقیقت اس کرونولوجی یعنی کہ ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے، یہ ٹی وی چینل ازخود ایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے بعض مخصوص ذہن کے لوگوں کا دماغ کام کررہا ہے اور جن کی ہدایت پرہی یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
تبلیغی مرکز کے معاملہ میں بھی یہی ہوا جھوٹی خبریں چلائی گئیں۔ فرضی ویڈیوز دیکھائے گئے جن کی تردید بھی اب بعض چینل کررہے ہیں مگر اس کے بعد بھی کوئی ان ٹی وی چینلوں سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟
حکومت اور وزیر نشر و اطلاعات کے ذمہ داران کویہ کہنا چاہئے تھا کہ اس طرح کے معاملات کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں غلط کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے دوران انسانی ہمدردی کی جو فضا ملک میں پیدا ہوئی تھی اور جس طرح لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر مجبور اور ضرورت مندوں کی مددکررہے تھے اس طرح کے پروپیگنڈے سے اسے سخت دھچکہ لگا ہے۔