ہر برس 10 دسمبر کو عالمی یوم حقوق انسانی پوری دنیا میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جس کا خاص مقصد ہوتا ہے کہ انسان اپنے حقوق و اختیار کو جانیں اور اس کے تحت بیدار ہو۔
واضح رہے کہ سنہ1948 میں اقوام متحدہ نے عالمی یوم حقوق انسانی منانے کی قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے بعد 1950 میں 10 دسمبر کو اس کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی۔ 28 ستمبر 1993 کو بھارت میں یوم حقوق انسانی نافذ کیا گیا، اسی برس 12 اکتوبر کو انسانی حقوق کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔
انسانی زندگی کو ابتدائے آفرینش سے موت تک بھارتی آئین میں حقوق حاصل ہیں۔ جن کی خلاف ورزی نہ ہی حکومت کر سکتی ہے اور نہ ہی سماج کر سکتا ہے۔
بھارتی آئین میں حقوق انسانی کے تعلق سے مختلف آرٹیکلز موجود ہیں جس کے تحت عدالت کا سہارا لے کر کے اپنے حقوق کی پاسداری کر سکتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے عالمی یوم حقوق انسانی کے موقع پر مہاتما گاندھی کاشی ودیا پیٹھ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وشال وکرم سنگھ سے خاص بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ اگر کسی شخص کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اس کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت میں کسی بھی معاملے کو چیلنج کرنے کے لیے ایک عدالتی کاروائی ہے جو مرحلہ در مرحلہ عدالتوں میں درخواست دائر کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو بلاواسطہ عدالت عظمی میں درخواست دائر کرکے انصاف کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم، روزگار انسانی زندگی گزارنے کے لیے جو وسائل ضروری ہیں۔ بھارتی آئین میں انسانی حقوق کو بنیادی حق میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی آئین میں مختلف مقامات پر جگہ دی گئی ہیں اگر اس کے خلاف ورزی کی جاتی ہے تو بھارتی عدالت کا سہارا لیں اور انصاف کا مطالبہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ کی اگر کوئی بھی شخص ذات، نسل، مذہب، رنگ کی وجہ سے امتیازی سلوک کرتا ہے تو اس کے خلاف عدالت میں جاکر انصاف کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے دن بھارت کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں مختلف پروگرام ہوتے ہیں، سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں لیکن زمینی سطح پر جن لوگوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس کے تحفظ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کرتا ہے۔ لہذا دانشور طبقہ کو چاہیے کو ایسے معاملات کی نشاندہی کر اس کے تحفظ پر آواز بلند کریں۔