دار العلوم دیوبند نے جاری اپیل میں کہا کہ ملک میں ایسے جانوروں کی قربانی کا متبادل موجود ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ ہم ان جانوروں کی ہی قربانی کریں جن کے قربانی کرنے سے ہمارے ہم وطن بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کے بعد گائے کے ذبیحہ کو لیکر کی جانے والی سیاست کے مد نظر اور کچھ صوبوں میں ماب لنچنگ کے واقعات رونما ہونے کے بعد دار العلوم دیوبند نے آئندہ 12 اگست سے 14 اگست تک تین دنوں تک منائے جانے والے عید الاضحی کے تہوار پر قربانی کے اصول وضوابط بتانے والا ایک کتابچہ جاری کیا ہے۔
جس میں ادارہ نے عید قرباں پر ایسے کسی جانور کی قربانی نہ کرنے کی اپیل کی ہے جس کی وجہ سے دوسرے طبقات کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔
قربانی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کتابچہ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے جن صوبوں میں جن جانوروں کی قربانی کرنے پر پابندی عائد ہے یا ایسے جانور جنہیں ریزرو کیٹیگری میں رکھا گیا ہے اور ان کی قربانی یا ذبیحہ پر بھی پابندی عائد ہے، وہاں ان جانوروں کی قربانی کے بجائے ایسے جانوروں کی قربانی کی جائے جو آسانی کے ساتھ مہیا ہوسکتے ہیں اور جن پر پابندی بھی نہ عائد ہوں۔
حالانکہ مذکورہ کتابچہ کافی عرصہ قبل شائع کیا گیا تھا، جس میں گائے کی قربانی کرنے سے منع کیا گیا تھا، وہیں دوسری جانب علماءکرام کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں قربانی کے لئے پابندی شدہ جانوروں کے علاوہ ان کا متبادل موجود ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ دار العلوم دیوبند نے مہاتما گاندھی کی اپیل پر کئی دہائیوں قبل گائے کی قربانی پر پابندی لگادی تھی۔
دار العلوم کے شعبہ تنظیم وترقی کے ناظم مولانا راشد نے کہا کہ قربانی کی آلائش ودیگر حصوں کو سڑکوں پر پھینکنے سے گریز کیا جائے اور قربانی کے گوشت کو زیادہ سے زیادہ غریبوں میں تقسیم کرکے ان کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔