ETV Bharat / state

گیان واپی اور کاشی متھرا عیدگاہ کیس پر سماعت ملتوی - حفاظت کی آئینی ذمہ داری عدالت اور حکومت کی

بنارس کی گیان واپی مسجد اور کاشی متھرا عیدگاہ کیس پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہونے والی تھی لیکن سپریم کورٹ میں عرضی گزار کے وکیل وشنو شنکر جین نے عدالت سے چار ہفتوں کی مہلت طلب کی۔

گیان واپی اور کاشی متھرا عیدگاہ کیس پر سماعت ملتوی
گیان واپی اور کاشی متھرا عیدگاہ کیس پر سماعت ملتوی
author img

By

Published : Jul 10, 2020, 6:50 PM IST

Updated : Jul 10, 2020, 7:06 PM IST

عرضی گزار کے سینیئر وکیل بحث کے لیے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے عدالت نے چار ہفتے کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔

جمعیت علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق اس معاملہ میں بطور مداخلت کار جمعیت علماء ہند کی جانب سے بحث کرنے کے لیے ملک کے ممتاز اور سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون آج پوری تیاری کے ساتھ عدالت گئے تھے مگر بحث نہیں ہوسکی اور آئندہ سماعت چار ہفتے کے لیے ملتوی ہوگئی۔

چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا نے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن جس میں انہوں نے 1991 کے مذہبی عبادت گاہ تحفظ کے قانونی یعنی پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، پر سماعت کے لیے تیار تھے لیکن عرض گزار کے وکیل نے بحث کرنے سے معذرت کر لی اور عدالت سے وقت طلب کیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

دریں اثناء صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے اس معاملہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیاد مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے، دوسرے اس قانون کی دفعہ ۴، عبادت گاہوں کی حیثیت کی تبدیلی کو روکتا ہے اور شائد اسی لیے اب اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنچ کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ قانون لاکر حکومت نے یہ آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے گی، اس قانون سازی کا ایک بڑامقصدیہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے،لیکن اس کے باوجود عدالت میں سادھوں سنتوں کی ایک تنظیم کے ذریعہ اس قانون کی آئینی حیثیت پر سوال کھڑاکرنے کی کوشش ہوئی ہے۔اب اس قانون کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری عدالت اور حکومت کی ہے۔

واضح رہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے،صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔

پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیت علماء ہند نے سب سے پہلے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے تاکہ عدالت سے یہ گذارش کی جاسکے کہ وہ سادھوؤں کی پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول ہی نہ کرے۔

جمعیت علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کو مداخلت کار کی پٹیشن میں مدعی بنایا گیا ہے جس کا نمبر 54990/2020 ہے۔آج کی عدالتی کارروائی میں ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لیے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ ایشوریہ سرکارو دیگر موجود تھے۔

عرضی گزار کے سینیئر وکیل بحث کے لیے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے عدالت نے چار ہفتے کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔

جمعیت علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق اس معاملہ میں بطور مداخلت کار جمعیت علماء ہند کی جانب سے بحث کرنے کے لیے ملک کے ممتاز اور سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون آج پوری تیاری کے ساتھ عدالت گئے تھے مگر بحث نہیں ہوسکی اور آئندہ سماعت چار ہفتے کے لیے ملتوی ہوگئی۔

چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا نے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن جس میں انہوں نے 1991 کے مذہبی عبادت گاہ تحفظ کے قانونی یعنی پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، پر سماعت کے لیے تیار تھے لیکن عرض گزار کے وکیل نے بحث کرنے سے معذرت کر لی اور عدالت سے وقت طلب کیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

دریں اثناء صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے اس معاملہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیاد مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے، دوسرے اس قانون کی دفعہ ۴، عبادت گاہوں کی حیثیت کی تبدیلی کو روکتا ہے اور شائد اسی لیے اب اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنچ کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ قانون لاکر حکومت نے یہ آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے گی، اس قانون سازی کا ایک بڑامقصدیہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے،لیکن اس کے باوجود عدالت میں سادھوں سنتوں کی ایک تنظیم کے ذریعہ اس قانون کی آئینی حیثیت پر سوال کھڑاکرنے کی کوشش ہوئی ہے۔اب اس قانون کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری عدالت اور حکومت کی ہے۔

واضح رہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے،صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔

پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیت علماء ہند نے سب سے پہلے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے تاکہ عدالت سے یہ گذارش کی جاسکے کہ وہ سادھوؤں کی پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول ہی نہ کرے۔

جمعیت علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کو مداخلت کار کی پٹیشن میں مدعی بنایا گیا ہے جس کا نمبر 54990/2020 ہے۔آج کی عدالتی کارروائی میں ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لیے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ ایشوریہ سرکارو دیگر موجود تھے۔

Last Updated : Jul 10, 2020, 7:06 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.