دراصل سال 2008 میں اتر پردیش کے ضلع امروہ میں سات افراد کے اجتماعی قتل پر پورا ملک انگشت بد نداں تھا۔ لوگ یہ جاننے کے لئے بے تاب تھے کہ آخر پورے خاندان کو ابدی نیند سلانے والا قاتل کون ہے؟
دراصل باون کھیڑی گاؤں کی رہنے والی شبنم اپنے ہی گاؤں کے عبدالرؤف کے بیٹے سلیم کے دام محبت میں گرفتار ہوگئی تھی۔ دونوں نے ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھائیں۔ مگر شبنم کے اہل خانہ کو یہ رشتہ نا منطور تھا۔ کیونکہ سلیم کا خاندان شبنم کے خاندان کے مقابلے میں کمتر تھا۔ گھر والوں کا یہ فیصلہ شبنم اور اس کے عاشق سلیم کے لئے پریشان کن تھا۔ اس کے بعد دونوں نے ایک ایسا منصوبہ بنایا کہ جس کی تکمیل کے بعد پورا ملک اس واقعہ پر محو حیرت تھا اور یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ایک رشتے کی بقا کے لئے خونی رشتوں کا خون کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔
قتل کی مکمل سازش
شبنم اور سلیم کی محبت کے اس رشتہ پر شبنم کے اہل خانہ کے فیصلے کے بعد ان دونوں نے ایک گہری سازش کی۔ دونوں نے مل کر شبنم کے گھر والوں کو ابدی نیند سلانے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔
14/15 اپریل 2008 کی وہ رات جب شبنم کے گھر والے کھانے سے فارغ ہوکر سو رہے تھے۔ شبنم بھی گھر کے لوگوں کو کھانا کھلانے کے بعد بظاہر سوگئی۔ مگر جب صبح ہوئی تو پورا گاؤں ایک کنبہ کی سات لاشیں ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گیا۔
شوکت کی 24 سالہ بیٹی شبنم کے علاوہ گھر کے تمام افراد کی لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔
اس واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد جب پولیس آئی اور اس بیہمانہ اجتماعی قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا تو شبنم نے پولیس کو بتایا کہ شرپسندوں نے اس کے گھر پر حملہ کر کے سب کا قتل کردیا ہے۔ شر پسند اس واقعہ کو انجام دینے کے لئے چھت کے راستہ سے گھر میں داخل ہوئے تھے۔ اجتماعی قتل کی یہ خبر ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی تھی۔
لوہے کا دروازہ اور پولیس کا شک
پولیس نے اس کیس کی تحقیقات میں تیزی دکھائی۔ کیونکہ ہر کوئی یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر قاتل کون ہے؟ جس نے ہنستے کھیلتے اس پورے کنبے کو ہی ختم کردیا۔ پولیس نے شبنم کے بیان کو بنیاد بنا کر تفتیش کا آغاز کیا۔ جب اس کے گھر کی چھت کا جائزہ لیا گیا تو زمین اور چھت کے درمیان تقریباً 14 فٹ کی فاصلہ تھا، جہاں سیڑھی لگانے کا کوئی نشان نہیں تھا۔
بارش کے پانی کو چھت سے نیچے اتارنے کے لئے صرف ایک پائپ تھی۔ تفتیش کے دوران پولیس کو پتہ چلا کہ کسی کے اوپر چڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
چھت سے نیچے اترتے والے زینے پر بھی ایک بڑا آہنی دروازہ تھا جو آسانی سے کھولا نہیں جا سکتا تھا۔ پولیس کو شبہ تھا کہ جب شبنم نے خود زینہ کا دروازہ نہیں کھولا تو پھر دروازہ کس نے کھولا؟ گھر کے مضبوط دروازے کو توڑنا ممکن نہیں تھا۔ یعنی دروازہ اندر سے ہی کھولا گیا تھا۔ بس اس معاملے پر شبنم پولیس کے ریڈار پر آگئی۔
موبائل کی کال ڈیٹیل نے کھول دیا راز
اس دوران پولیس کو شبنم کے فون کال کی تفصیلات مل گئیں۔ پولیس کو معلوم ہوا کہ شبنم نے 3 ماہ میں 900 سے زیادہ بار فون کیا تھا۔ جب پولیس نے اس نمبر کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ یہ نمبر گاؤں میں آرا مشین چلانے والے سلیم کا ہے۔ سی ڈی آر کی جانچ کے بعد پولیس اس نتیجہ پر پہنچی کہ واقعہ کی رات شبنم اور سلیم کے مابین 52 بار فون پر بات چیت ہوئی ہے۔
پولیس کے سامنے اس اجتماعی قتل کی تصویر واضح ہو رہی تھی۔ پولیس نے سلیم نام کے اس نوجوان کو بغیر کسی تاخیر کے حراست میں لے لیا۔ تب شبنم اور سلیم سے پوچھ گچھ کی گئی۔ پہلے تو شبنم نے بدمعاش کی کہانی سناتی رہی، لیکن پولیس کی سختی کے بعد سلیم اور شبنم نے اقبالِ جرم کر لیا۔
کیسے کیا قتل؟
اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے شبنم اور سلیم نے بتایا کہ سلیم نے شبنم کو زہر فراہم کیا تھا۔ جسے شبنم نے 14 اپریل 2008 کی رات کھانے کے بعد فیملی کی چائے میں ملا دیا تھا۔ گھر کے تمام ارکان نے چائے پی تھی۔ اس کے بعد وہ سب یکے بعد دیگرے موت کے منہ میں سماتے چلے گئے۔ بعد ازاں شبنم نے سلیم کو فون کر کے اپنے گھر بلایا۔
سلیم کلہاڑی لے کر وہاں آیا اور شبنم کے گھر کے تمام افراد کا سر قلم کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ شبنم کے دس سالہ بھانجے کا بھی گلا دبا کر قتل کردیا گیا۔ آگے چل کر تمام مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زہر کی تصدیق ہوگئی۔ پوسٹ مارٹم میں تمام لاشوں کے پیٹ میں زہر پایا گیا تھا۔
واقعہ کو انجام دینے والی شبنم اور اس کے عاشق سلیم کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں پر اجتماعی قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ضلعی عدالت کے جج اے حسینی نے اس معاملے میں شبنم اور سلیم کو قصوروار ٹہرایا اور ان دونوں کو پھانسی دینے کا حکم دیا۔
ضلع عدالت کے بعد جب یہ کیس ہائی کورٹ پہنچا تو وہاں بھی وہی سزا برقرار رکھی گئی۔ جب اس قاتل جوڑے کو ہائی کورٹ سے راحت نہیں ملی تو ان کے وکلا نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ لیکن سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت کو برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ کے بعد اب صدر رام ناتھ کووند نے بھی باون کھیڑی قتل کیس کی ماسٹر مائنڈ شبنم کی رحم کی اپیل مسترد کردی ہے، جس کے بعد شبنم کو پھانسی دینے کی تیاری جاری ہے۔
شبنم کے چچا کیا کہتے ہیں؟
شبنم کے چچا ستار احمد آج بھی اس قتل عام کو نہیں بھولے ہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد اُنہو ں نے نہ تو شبنم کو دیکھا اور نہ ہی اس سے کوئی بات کی۔ ستار کا کہنا ہے کہ شبنم نے جو کیا اس کی سزا اسے یقیناً ملے گی۔
شبنم کی چچی کیا کہتی ہیں؟
شبنم کو دی جانے والی پھانسی کی خبر سننے کے بعد شبنم کی چچی فاطمہ خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ محبت تو سب کرتے ہیں لیکن محبت میں ایسا قتل عام اُنہوں نے آج تک نہیں دیکھا۔
وہیں، فرقان احمد عرف بوبا جو اس وقت گاؤں کے پردھان تھے، آج بھی اس دل خراش منظر کو نہیں بھول پائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی لاشوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہاؤس گئے تھے۔ انہیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ ایک بیٹی اس طرح کی سازش کر سکتی ہے اور اپنے پورے کنبے کا قتل کر سکتی ہے؟