لکھنؤ: ریاست اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت نے اسمبلی کی کارروائی کے دوران 26 مئی کو اتر پردیش کی فلاح و بہبود و ترقی کے لیے بجٹ پیش کیا جس کے حوالے سے برسر اقتدار کے رہنما نے خوب تعریف کی تاہم حزب اختلاف کے رہنماؤں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس بجٹ میں معمول کے مطابق اقلیتوں کے لئے تقریباً 6 سو کروڑ رقم مختص کیے گئے ہیں اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے سینیئر رہنما شاہد منظور MLA Shahid Manzoor نے کہا کہ یہ دستاویزی بجٹ ہے۔ آئینی روایت کو برقرار رکھا گیا ہے اس کے علاوہ ریاست کی فلاح و بہبود و ترقی و دیگر طبقات کی فلاح کے لیے کوئی خاص اور اہم بجٹ نہیں ہے۔ Exclusive Talk with Shahid Manzoor on UP Budget
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اگر کچھ خاص ہوتا تو اس سے قبل کے بجٹ کے بارے میں بھی بات چیت ہوتی اور یہ بھی اسمبلی میں برسرِ اقتدار جماعت کو بتانا چاہیے کہ گزشتہ بجٹ میں جو اعلانات کیے گئے تھے وہ مکمل ہوئے یا نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے لیے 600 کروڑ کا بجٹ مختص کیے گئے ہیں یہ حکومت کی مجبوری ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لیے بجٹ مختص کر رہی ہے تاہم اگر آئین اور بجٹ کی روایت میں اقلیتوں کے لیے بجٹ کا اختصاص نہ ہوتا تو یہ بھی ختم ہو جاتا۔
انہوں نے گزشتہ بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں حکومت کا نجی دعویٰ ہے کہ اقلیتی طلبا کے لیے اسکالر شپ دی گئی ہے جو کہ بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اسی طرح رواں برس کا بجٹ ہے جو صرف اقلیتوں کے لیے سبز باغ کی طرح ہیں۔ انہوں نے حکومت سے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ بجلی چوری کو روکا گیا ہے اور ساٹھ فیصد تک بجلی چوری کم کر دی گئی ہے۔ اگر حکومت کا دعویٰ صداقت پر مبنی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جانی چاہیے، اگر قیمتیں کم نہیں ہوتی ہیں تو حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ اگر ساٹھ فیصد بجلی چوری رکی ہے تو اس کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں ہو رہی ہیں۔
دیوبند، میرٹھ اعظم گڑھ سمیت متعدد شہروں میں اے ٹی ایس سینٹر قائم کرنے کے لیے بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس پر انہوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں آر آر ایف فورس پولیس فورس پی ایس سی ایس سی پر اعتماد کم ہوا ہے؟ اگر کم نہیں ہوا ہے تو اے ٹی ایس سینٹر قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اے ٹی ایس سینٹر قائم کرنا ہے تو دیگر شہروں میں بھی قائم ہوسکتے ہیں۔ شہروں کے انتخابات پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی متعدد غیرضروری مدعے عوام کے سامنے لارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں ریاست کے سامنے مہنگائی، بے روزگاری اور ریاست کی تعمیر و ترقی اہم چیلنج ہے اس پر حزب اختلاف کی جماعت سے بات چیت کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حجاب اور لاؤڈ اسپیکرز سے ریاست کی جی ڈی پی میں اضافہ ہورہا ہے تو ٹھیک ہے لیکن ان سے کوئی فائدہ اب تک نہیں نظر آیا۔ لہٰذا حکومت کو ان موضوعات پر بات چیت نہیں کرنی چاہیے اور عوام کے سامنے جو چیلنج درپیش ہیں اس کو حل کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
- 'یوپی بجٹ میں حکومت نے کسانوں کو نظر انداز کیا'
- یوپی بجٹ سے اقلیتوں کو مایوسی، مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک: وحید اللہ خان
انہوں نے کہا کہ حکومت ان مدعوں کو سامنے اس لیے لا رہی ہے تاکہ اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اقلیتوں کو زیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بجٹ سے بالکل مطمئن نہیں ہوں یہ ایک دستاویزی بجٹ ہے جس میں آئینی روایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ صحیح طور پر بجٹ پیش کرنا ہوتو ہر شعبہ کے لیے علیحدہ طور پر بجٹ مختص کر کے اس پر بحث کی جائے اور حزب اختلاف کے مشورے پر بھی عمل کیا جائے۔