پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتہائی قریبی دوست پروفیسر شارب ردولوی بتاتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ نے اپنی زندگی کو دو چیزوں کے لیے وقف کردیا تھا، پہلا اردو زبان، دوسرا بھارتی تہذیب۔ وہ کہتے تھے کہ اردو زبان و ادب کی خدمت میرا اوڑھنا بچھونا ہے اور بھارتی تہذیب میرے خون میں رچی بسی ہے اور دونوں چیزیں آکر اردو میں مل جاتی ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انجہانی گوپی چند کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ گوپی چند نارنگ کا انتقال فقط ایک صدمہ نہیں ہے بلکہ اردو تنقید کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے جن اسلوبیات کو اردو زبان و ادب میں متعارف کرایا وہ گراں قدر خدمات ہیں۔
پروفیسر شارب ردولوی بتاتے ہیں کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرے تعلقات خاندانی تھے تقریبا چالیس برس تک ہم دونوں ساتھ میں زندگی گزارے ہیں دہلی یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور اردو زبان و ادب پر مفصل گفتگو ہوا کرتی تھی ان کے انتقال سے قبل بھی فون پر گفتگو ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیوی بچے ان کے گھر جاتے تھے اور وہ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمارے گھر آتے تھے اور انتہائی خوش دلی کے ساتھ زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ کو بیاں کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ گوپی چند نارنگ کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اردو زبان میں ہر نئے رجحانات کو متعارف کرانے کی کوشش کرتے تھے چاہے وہ اسلوبیات ہو یا ساختیات ہو یالفظیات ہو۔ قدیم اردو شعراء کو انہوں نے لفظ بلفظ مطالعہ کر کے اردو دنیا کو نئے پہلو سے روشناس کرایا۔ امیر خسرو سے لیکر میر داغ سودا غالب کے غزلیات میں گوپی چند نارنگ نے بھارتی تہذیب اور فکر سے ہم آہنگی کرایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا ایک قدیم فلسفی پی ناگاارجن جس نے صفر کا فلسفہ دیا تھا اس کے فلسفے کو غالب کے اشعار میں تلاش کر کے اردو داں طبقے کو روشناس کرانا بہت بڑا کام ہے۔ اس کام کے لیے صدیاں گزر جاتی ہیں لیکن اتنا بڑا کام نہیں ہوسکتا تھا۔ بھارتی شعراء میں غالب پہلے ایسے شاعر ہیں جن کو اشعار میں ناگاارجن کا فلسفہ موجود ہے۔ صفر کے فلسفہ کا مطلب ہے کہ خاموشی سے کوئی بات کہہ دینا۔
پروفیسر شارب رودلوی بتاتے ہیں کہ غیر منقسم بھارت کے بلوچستان میں ان کی پیدائش ہوئی اس کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ میں بھی پٹھان ہیں اس طرح ان کے تفنن طبع پر مشتمل متعدد واقعات ہیں۔ پروفیسر شارب ردولوی بتاتے ہیں کہ گو پی چند نارنگ تنقیدی میدان میں منفرد شناخت رکھتے تھے اور ہم بھی تنقیدی میدان سے ہی وابستہ ہیں تاہم فنی اعتبار سے اگرچہ اختلافات رہا ہو لیکن آپسی تعلقات میں کبھی بھی اختلافات نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیں: Tribute to Gopi Chand Narang in Delhi: 'گوپی چند نارنگ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا'