مرادآباد: ریاست اترپردیش کے بجنور تحصیل سیوہارا ضلع کی رہنے والی شائرہ مہناز سیوہاروی ایک کتاب کی اجرائی پروگرام میں شرکت کے لیے مرادآباد پہنچی تھیں۔ شاعرہ مہناز سیوہاروی نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کا نام محمد علی ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں اور میرے والد نے ہی مجھے شاعری کرنا سکھائی ہے۔
میں نے ملک کے کئی شہروں میں مشاعرہ پڑھا ہے، میں جب بھی مشاعرہ پڑھنے جاتی ہوں، میرے والد ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہیں، والد کے بغیر میں پڑھنے کہیں نہیں جاتی۔ شاعری کی دنیا میں مجھے جتنی عزت ملی وہ میرے والد کی وجہ سے ہے۔
مزید شاعرہ مہناز سیوہاروی نے کہا کہ میرے والد مجھے شاعری کی دنیا کی بلند ترین چوٹی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں شاعری کی دنیا میں اپنی شاعری اور اپنے والد کی وجہ سے پہچانی گئی ہوں، میں اپنی غزلیں ان لوگوں کو سنانا چاہتی ہوں۔ میری غزلوں نے مجھے مشاعرہ کی دنیا میں ایک الگ پہچان دی اور لوگوں نے میری شاعری کو بہت پسند کیا۔
شاعرہ مہناز سیوہاروی کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
وقت انسان کو جب کوئی سزا دیتا ہے
غیر تو غیر ہے اپنا بھی دغا دیتا ہے
اس کی تعریف کو الفاظ کہاں سے لاؤں
ظلم سہ کر بھی جو ظالم کو دعا دیتا ہے
تو یقیناً کبھی سلطان رہا ہے پہلے
تیرا لہجہ تیری عظمت کا پتہ دیتا ہے
ان کی فرقت میں عجب حال ہوا ہے میرا
کوئی پاگل کوئی دیوانہ بتا دیتا ہے
حال دل اس کو سنانے کی ضرورت کیا ہے
جو ہر ایک بات کو افسانہ بنا دیتا ہے
ناز کم ظرف کے احسان سے بچ کر رہنا
حسن کردار کو مٹی میں ملا دیتا ہے
تو تو اشرف ہے مگر عارضی شہرت کے لیے
چڑھتے سورج کی طرف سر کو جھکا دیتا ہے
یہ بھی پڑھیں:
- انٹیگرل یونیورسٹی میں تقریب تقسیم اسناد وکل ہند مشاعرہ
- راحت اندوری کے 73ویں یوم پیدائش کے موقع پر مشاعرہ
مزید گفتگو کرتے ہوئے شاعرہ مہناز نے کہا کہ بہت جلد میرے والد بیرون ملک دبئی عمان میں مشاعرہ پڑھنے جا رہے ہیں، جس طرح ملک ہندوستان میں میری شاعری اور غزلوں کو پسند کیا گیا ہے اس پر میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ مشاعرے میں آنا میرے لیے فخر کی بات ہے، مشاعروں کی دنیا میں میری کامیابی میرے والد کی وجہ سے ہوئی ہے۔