ڈی ایم کی اس کارروائی کے بعد محکمہ میں افراتفری مچ گئی۔ سپلائی دفتر کے ملازم سے لے کر افسر تک بےچین نظر آئے۔
دراصل لمبے وقت سے سپلائی دفتر کی کئی طرح کی شکایتیں ڈی ایم تک پہنچ رہی تھیں۔ کچھ شکایتیں لوکوانی کے ذریعے، کچھ شکایت آئی جی آر ایس کے ذریعے تو کچھ شکایتیں نجی طور پر عوام کی طرف سے ڈی ایم تک پہنچی تھیں۔
ان شکایتوں میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح سپلائی دفتر کے ملازم حکومت کی طرف سے ملنے والے سرکاری اناج کو عوام تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ بے بنیاد طریقے سے تمام خامیاں دکھا کر لوگوں کے یونٹ کم کر دئے جاتے ہیں اور ان کے حق کا اناج کا بندر بانٹ ہو جاتا ہے۔
ڈی ایم پلکت کھرے نے چھاپہ ڈالنے کے بعد سب سے پہلے دفتر میں رکھی تمام فائلوں اور دستاویزوں کو باریکی سے دیکھا جس میں کئی طرح کی خامیاں پائی گئیں۔ جس پر ڈی ایم نے ناراضگی بھی ظاہر کی۔
اس کے علاوہ ڈی ایم جیسے ہی سپلائی دفتر میں داخل ہوئے تمام دلال بھی وہاں پر دکھے جو صبح سے شام تک دفتر کے تمام کاموں میں دخل اندازی کرتے ہیں اور دفتر کے ملازموں کے لئے بدعنوانی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ڈی ایم کے اچانک سپلائی دفتر پہنچنے کے بعد محکمے میں بیچینی سی نظر آئی۔ افسر تک سہمے نظر آئے اور وہاں پر کام کر رہے تمام دلال ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے۔ یہ بے چینی شاید اس لیے اور بڑھ گئی کیونکہ عوام کی طرف سے محکمہ کے لیے لگائے گئے الزام سچ ثابت ہوتے نظر آ رہے تھے۔
ڈی ایم کی ناراضگی کے بعد افسر سہمے ضرور ہیں لیکن اس کا کتنا اثر آنے والے وقت میں دکھے گا اور عوام کی کتنی شکایت دور ہو پاتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔