علی گڑھ :شعبہ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی کی دعوت پر کویت یونیورسٹی کے استاذ اور نامور مصنف پروفیسر عبد اللہ القتم نے ایک خصوصی پروگرام میں شرکت کی۔
پروفیسر ثناء اللہ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں معززمہمان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کی علمی، ادبی،تحقیقی خدمات علمی دنیا میں معروف ہیں۔ پروفیسر عبد اللہ القتم کو خصوصی طور سے ہندوستان کی تہذیب،ثقافت اور عربی اسلامی علوم وفنون سے شغف ہے۔انہوں نے یہاں کے ادبی، علمی وشعری کارناموں پرتصنیف وتالیف اور بین الاقوامی سمینار کے انعقاد کے ذریعہ بیش بہا کام کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں ہندوستان کے عربی شعراء پر دو مفصل جلدیں سر فہرست ہیں۔
پروفیسر عبد اللہ القتم نے طلباء واساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان بہت ہی مردم خیز ملک ہے، یہاں کی قاموسی شخصیتوں نے بڑے بڑے علمی وادبی کارنامے انجام دئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم یونیورسٹی کا شعبہ عربی ہندوستانی دانشگاہوں کے علاوہ بیرونی علمی حلقوں میں بھی اپنی زریں خدمات کے لئے معروف ہے۔
انہوں نے کووڈ کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس خوفناک ماحول میں ہندوستان کے علمی موضوعات کو زیر بحث لاکر تقریبا چار سو شعراء کے حالات و اشعار نقل کرکے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ہندوستان کے معروف ومشہور عربی شاعر قاضی عبد المقتدر الشریحی دھلوی کے قصیدۃ لامیۃ الھند پر تحقیق کرکے مفید حواشی وتعلیقات کے ساتھ شائع کیاہے۔ یہ قصیدہ مجلہ المجمع العلمی الھندی العربی اور مجلۃ ثقافۃ الھند میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں عربی زبان وادب کے حوالہ سے ہندوستان کی عربی شعر وشاعری پرتفصیل سے اظہار خیال کیا۔
صدر جلسہ سابق ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ موضوع نہایت ہی اہم ہے جس پر مہمان مقرر نے بہت ہی علمی انداز میں گفتگو کی ہے،ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔ شعبہ کے استاذ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے اس طرح کے علمی پروگرام کے انعقاد کے لئے صدر شعبہ کا شکریہ ادا کیا اورمہمان مقرر کو مبارکباد دی۔
یہ بھی پڑھیں:WCICH In AMU اے ایم یو میں انٹیگریٹیڈ کمیونٹی ہیلتھ پر 2024 میں عالمی کانگریس کا انعقاد
پروگرام میں شعبہ کے اساتذہ وطلباء بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوئے نیز مہمان مقرر سے مختلف علمی سوالات کئے۔ جلسہ کا آغاز شعبہ کے ریسرچ اسکالر محمد شاہد کے تلاوت کلام پاک سے ہوا اور اختتام پروفیسر تسنیم کوثر قریشی کے شکریہ کے کلمات کے ساتھ ہوا۔