لکھنؤ: ایک طرف سنبھل میں فرقہ وارانہ تشدد کو لے کر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے تیزی سے کارروائی کی جا رہی ہے، وہیں دوسری طرف سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک بار پھر اسکرین شاٹ پوسٹ کیا ہے۔ جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ "ہنگامہ شروع کرنے والوں اور فساد کی پہلی وجہ کون تھے ان کی تصاویر کب لگائی جائیں گی۔"
जिन्होंने बवाल शुरू किया और जो पहले पहल फ़साद की वजह बने, उनकी तस्वीरें कब लगेंगी?#Sambhal pic.twitter.com/LV65LWhSXq
— Akhilesh Yadav (@yadavakhilesh) November 28, 2024
ایس پی صدر اکھلیش یادو کا یہ پوسٹ اس وقت سامنے آیا ہے جب سنبھل انتظامیہ کی جانب سے 100 سے زائد مظاہرین کے پوسٹر جاری کیے گئے ہیں۔ اس پوسٹ کے سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے سنبھل جامع مسجد کیس میں ہندو فریق کے وکیل وشنو جین سے فون پر بات کی۔ دراصل، اکھلیش یادو کی سوشل میڈیا پوسٹ میں وشنو جین بھی نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کے درمیان نظر آ رہے ہیں۔
وکیل وشنو جین نے فون پر بتایا کہ "ایس پی سربراہ اکھلیش یادو غیر قانونی بات کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے میرے خلاف گمراہ کن خبریں پھیلا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن پہلے، وشنو جین نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان الزامات کی وجہ سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں، جس کے لیے وہ اکھلیش یادو، اسد الدین اویسی، ایس پی میڈیا سیل، سنبھل کے ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق اور جامع مسجد کے سکریٹری ایم یاسین کو ذمہ دار مانتے ہیں۔
ہندو فریق کے وکیل وشنو جین نے بتایا کہ سروے صبح 7:30 بجے سے 11:00 بجے تک جاری رہا میں ہندو فریق کی طرف سے اور عدالت کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا۔ ایس پی سربراہ کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ میں نعرے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں وہ کون لوگ تھے جو نعرے لگا رہے تھے۔
میں خود بھی فسادات میں پھنس گیا تھا۔ 11 بجے سروے ختم ہوا تو پولیس نے محفوظ راستہ دیا اور پھر میں وہاں سے نکلا۔ وہاں موجود مقامی لوگوں نے جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ میں نے کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ فساد کی وجہ سے میں سیدھا تھانے گیا اور بعد میں سنبھل سے نکل گیا۔
تاہم ایڈوکیٹ وشنو جین نے سروے رپورٹ کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ کمشنر کل عدالت میں رپورٹ پیش کریں گے جس کے بعد مزید صورتحال واضح ہوگی۔