ریاست اترپردیش میں کانگریس نے ضلع شاملی کے ایک گاؤں میں 25 مئی کو پولیس کے ذریعہ مسلم طبقے پر بربریت اور حملے کا الزام لگاتے ہوئے قصوروار پولیس والوں کو فوراً معطل کرنے اور معاملے کی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کانگریس اقلیتی سیل کے ریاستی چیئر مین شہنواز عالم نے پیر کو جاری اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ جھنجھانا علاقے کے ٹپرانہ گاؤں میں عید کے دوسرے دن پولیس نے نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مارپیٹ کی بلکہ گھروں میں توڑ پھوڑ کے ذریعہ انہیں خائف کرنے کی کوشش کی تھی، جس کی وجہ سے تقریباً 35 کنبوں کو گاؤں چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔
![پانچ جون کو کانگریس کے وفد نے گاؤں کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا اور اس کی رپورٹ انہیں سونپی جسے پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو روانہ کردیا گیا ہے](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/09:22_nat-congressrs-06062020-niyamika_06062020164859_0606f_01845_751.jpg)
انہوں نے بتایا کہ پانچ جون کو کانگریس کے وفد نے گاؤں کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا اور اس کی رپورٹ انہیں سونپی جسے پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو روانہ کردیا گیا ہے۔
مسٹر شہنواز نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق پولیس نے ایک مطلوب ملزم کو پکڑنے کے لیے گاؤں میں دبش دی تھی، لیکن اسے گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے فرقہ وارانہ گالیاں دیتے ہوئے گاؤں کے سبھی مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے اس رویہ کی شکایت انچار ج انسپکٹر سے کی گئی، جس کے بعد انچارج انسپکٹر گیانیندر سنگھ نے گاؤں کے ہی جمشید نامی شخص کے گھر سبھی کے سامنے معذرت کرتے ہوئے مسقبل میں پولیس کی جانب سے ایسی غلطی سرزد نہ ہونے کا ہقین دلایا ۔
لیکن اس کے دوسرے ہی دن یعنی 26 مئی کی آدھی رات میں پولیس کی وردی میں منھ پر کپڑے باندھ کر تقریباً 100 افراد مسلمانوں کے گھروں میں جبرا گھس گئے، انہوں نے پہلے ہی لائٹ کاٹ دی تھی اور گھروں میں توڑ پھوڑ کے ساتھ نقدی اور زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے۔
اس دوران خواتین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ مارپیٹ کی گئی جس میں تقریباً 24 لوگ بری طرح سے زخمی ہوگئے۔
پولیس 31 افراد کو گرفتار کرکے بھی لے گئی جس میں کئی نابالغ بچے شامل ہیں۔
مسٹر شہنواز نے الزام لگایا کہ مسلمانوں پر ہوئے اس حملے میں پولیس کے ساتھ ہی مقامی شرپسند عناصر شامل تھے جنہیں حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔