صدر جلسہ پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے دونوں اعیان علم کی وفات پر رنج والم کا اظہار کرتے ہوئے اسے ادب کا بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا فاروقی صاحب کے انتقال پر ہم کس طرح گفتگو کریں ذہن اور الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح وہ اردو زبان و ادب کے بڑے عالم تھے اسی طرح ان کا تعلق فارسی روایت سے بھی تھا۔ وہ فارسی کے کلاسیکی ادب سے لے کر جدید ادب تک سے واقف تھے۔ فارسی میں جدید ادبی و تنقیدی تھیوری پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔
صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کی علمی و ادبی حیثیت مسلم تھی، ابھی چند ماہ قبل اس شعبہ میں تشریف لائے اور غزل کے کلاسیکی تصور پر نہایت بلیغ خطبہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فاروقی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے شمس الرحمٰن فاروقی کی ناول نگاری سے متعلق گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ناول کے چاند تھے، سر آسماں چار سو سال کی تہذیبی بازیافت ہے۔ انہوں نے کہا فاروقی صاحب نے افسانے میں کلچر کو بڑھتا ہے جس سے تہذیب کو ایک نئی شناخت ملی ہے۔
شعر غیر اور نثر کے حوالے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا پہلا ہی مضمون ان کی علمیت کی دلیل ہے۔ انہوں نے شمس الرحمن فاروقی کی کتابوں کے حوالے سے کہا کہ صرف ان کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور یہ لفظ ان کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔
پروفیسر قاضی جمال حسین نے کہا کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے تھے اور ان کی ایک خوبی ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور دوسری ان کا جذبہ ایثار تھا۔
مزید پڑھیں:
اے ایم یو : طبقات الارض شعبہ کے پانچ طلبہ اسسٹنٹ ہائیڈرو لوجسٹ کے طور پر منتخب
شمس الرحمن فاروقی سے متعلق تعزیاتی قرارداد پر پروفیسر سید سراج الدین اجملی جبکہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی سے متعلق قرارداد پر ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے پیش کی۔ پروگرام میں اساتذہ اور ریسرچ اسکالروں سمیت غیر تدریسی عملہ بھی شریک ہوا۔