اترپردیش میں خلافت تحریک کی باگ ڈور لکھنؤ کے علی برادران کے ہاتھوں میں تھی، انہوں نے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
اترپردیش کے ضلع کھیری میں بھی خلافت تحریک کا جذبہ نصیرالدین، معشوق علی اور بشیر کے دلوں میں پروان چڑھا اور ان تینوں نے فیصلہ کیا کہ کھیری کے انگریز کلکٹر کو نشانہ بنایا جائے۔
26 اگست 1920 کو عیدالاضحیٰ کا دن تھا، وہ تینوں منصوبہ بند طریقے سے کسی طرح ہتھیار کے ساتھ انگریز کلکٹر کے بنگلے میں پہنچ گئے۔
نصیرالدین نے ویلوبی کو للکارا اور اس پر حملہ کر دیا۔ پہلی بار وہ چوک گئے اور ویلوبی کرسی سے اٹھ کر بھاگنے لگے۔ نصیرالدین نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملے بھی کیے جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔
کلکٹر کی موت کے بعد انگریز حکومت میں ہلچل مچ گئی۔ بات کھیری سے انگلینڈ پہنچ گئی۔ انگریز افسران نصیرالدین، معشوق اور بشیر کی تلاش میں گھومنے لگے۔
نصیرالدین اور بشیر کو اس واقعہ کے چند گھنٹوں کے بعد ہی گرفتار کر لیا گیا جبکہ معشوق علی کو 30 اگست کو لکھنؤ پولیس نے گرفتار کیا اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کیا۔ 25 نومبر 1920 کو صبح ساڑھے 6 بجے ان تینوں آزادی کے متوالوں کو پھانسی دے دی گئی۔
انگریزوں نے اپنے آئی سی ایس افسر آر ڈبلیو ڈی ویلوبی کی یاد میں لکھیم پور میں ویلوبی ہال بنایا جس میں آج بھی ایک لائبریری قائم ہے جبکہ بتایا جاتا ہے کہ نصیرالدین کی قبر کھیری ضلع کے جیل میں موجود ہے۔