سنت روی داس نے اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ تاہم معاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے ان کی خدمات لوگوں میں عیاں ہے۔
یوں تو ہندی زبان و ادب میں سنت روی داس پر مختلف کتابیں لکھی گئیں ہیں لیکن اردو زبان میں ابھی تک نہ ہی کوئی مستقل کتاب منظر عام پر آئی ہے اور نہ ہی کوئی ریسرچ ہوا ہے۔
تاہم اب بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ صوفی سنتوں نے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کی بیش بہا خدمات ہیں جس کو اردو زبان و ادب جاننے والے والوں نے نظر انداز کیا ہے۔
اب بنارس ہندو یونیورسٹی کا شعبہ اردو سنت روی داس پر اس پہلو سے ریسرچ کرائے گا کہ انہوں نے اپنی نظریات عوامی سطح تک پہنچانے میں اردو زبان کا کتنا استعمال کیا ہے۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے بتایا کہ 'ہم نے سنت روی داس کی چار کتابیں پڑھی ہیں جس میں ایک اندازے کے مطابق 50 فیصد الفاظ اردو اور فارسی کے استعمال کئے گئے ہیں۔
جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے لیے ان کے خدمات ناقابل فراموش اور قابل فخر ہیں، لہذا اس پر ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ سنت روی داس، بلھے شاہ یا دیگر صوفی سنتوں نے اردو زبان و ادب کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں۔
واضح رہے کہ سنت روی داس بنارس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور وارانسی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔
آج بھی لاکھوں کی تعداد میں روی داس کی یوم پیدائش پر عقیدت مند آتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
سنت روی داس نے دسائی مذہب کی بنیاد رکھی جس کے پیروکار ملک و بیرون ملک موجود ہیں۔ اس مذہب کے بنیادی اصولوں میں ذات پات، اونچ نیچ، رنگ و نسل کی تفریق کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
روی داس پیشے سے موچی یعنی جوتے بنانے کا کام کرتے تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سبھی سادھو، سنتوں اور فقیروں کو مفت جوتا دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں جمہوری نظام کمزور ہو رہا ہے: فریڈم ہاؤس کی رپورٹ
ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ روی داس کو تائید غیبی حاصل تھی جس سے کئی واقعات خلاف معمول رونما ہوئے ہیں۔