آج سے تقریباً 162 برس قبل جب مُلک کو انگریزوں کی گرفت سے آزاد کرانے کی تحریک شروع ہوئ تو اس وقت رمضان کا مہینہ تھا. سنہ 1857 میں عید منانے کے بعد جب انقلاب کی شروعات ہوئ تو 31 مئ کو بریلی نے ایک لمحے میں خود کو انگریزوں کی گرفت سے آزاد کر لیا.
بریلی کالج میں موجود دستاویز کے مطابق 22 مئ کو رمضان کا آخری جمعہ یعنی الوداع تھا اور نو محلہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیئے کینٹ علاقے کے فوجی آئے ہوئے تھے. نماز کے بعد مولوی احسن نے جذباتی تقریر کرنا شروع کر دیا.
انہوں نے لوگوں سے کہا کہ انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت جائز ہے. انگریزی حکومت کے ظلم و زیادتی سے آزادی صرف بغاوت سے ہی مل سکتی ہے. اُنکی جذباتی تقریر سے لوگون میں جوش پیدا ہو گیا۔ آئندہ جمعہ سے پہلے بریلی کے کلیکٹر نے انہیں ضلع بدر کر دیا. انقلابی تحریک کے بعد وہ دوبارہ بریلی واپس. سنہ 1862 میں انکا نام کالج کے ٹیچروں میں شامل کر لیا گیا تھا.
صوبہ دار بخت خان کی قیادت میں 18 ویں اور 68 ویں ہندوستانی ریجیمنٹ نے بغاوت کا اعلان کر دیا. اُس وقت انگریز سپاہی 11 بجے چرچ میں عبادت کر رہے تھے. صوبہ دار کی قیادت میں ضلع ایس پی براؤن کا مکان جلا دیا گیا.
کینٹ میں بغاوت کی کامیابی کی خبر ملتے ہی شہر کے مختلف مقامات پر انگریزوں پر حملہ شروع ہو گئے. شام چار بجے تک بریلی کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کرا لیا گیا. پہلے دن شکست ہونے کے بعد انگریز نینی تال کی جانب بھاگ کر پناہ گزین ہو گئے. اس دن 16 انگریز آفیسر کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا. ہلاک ہونے والے آفیسر میں ضلع جج رابرٹسن، سیشن جج ریکس، ایس پی براؤن، سول سرجن ڈاکٹر لی، بریلی کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سی بک اور جیلر ہینس برو وغیرہ شامل تھے.
اس فتح کے بعد روہیلا سردار خان بہادر خان کو اپنا صوبے دار منتخب کر دیا گیا. مسلسل 11 مہینے تک بریلی ضلع انگریزوں کی گرفت سے آزاد رہا. مئ 1858 میں مضبوط ہوکر دوبارہ لوٹے انگریزوں نے ایک بار پھر بریلی پر قبضہ کر لیا اور روہیلہ سردار نواب خان بہادر خان کو گرفتار کر لیا گیا. اس کے بعد سنہ 1947 میں پورے ملک کے ساتھ بریلی بھی آزاد ہو گیا.
بریلی کے کینٹ علاقے میں ایک قلع بھی ہے. جہاں خان بہادر خان کو گرفتار کرنے کے بعد تنہائی میں رکھا گیا تھا. انہیں اس قلع کی ایک کوٹھری میں قید کرکے رکھا گیا تھا. اب یہ قلع کینٹ کے بے حد محفوظ اور فوج کی نگرانی میں ہے.