اسلام آباد/نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی دو طرفہ ملاقات کے بعد پاکستان پریشان ہے۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ہندوستان-امریکہ کے مشترکہ بیان میں پاکستان کا خاص تذکرہ کیے جانے سے ناراض اسلام آباد نے جمعہ کو امریکہ کے ساتھ اپنے ماضی کے انسداد دہشت گردی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر حیرت کا اظہار کیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ (ایف او) کے ترجمان شفقت علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم 13 فروری کے بھارت اور امریکہ کے مشترکہ بیان میں پاکستان کا حوالہ دیے جانے کو یکطرفہ، گمراہ کن اور سفارتی اصولوں کے منافی مانتے ہیں، ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون کے باوجود مشترکہ بیان میں اس طرح کا حوالہ شامل کیا گیا۔"
وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ نے 'دہشت گردی کے عالمی بحران' پر تفصیلی بات چیت کی۔ دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کے کونے کونے سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کیا جانا چاہیے۔
ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ "ہمارے شہریوں کو نقصان پہنچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی مشترکہ خواہش کو تسلیم کرتے ہوئے، امریکہ نے اعلان کیا کہ تہور رانا کو بھارت کے حوالے کرنے کو منظوری دے دی گئی ہے۔ بھارتی اور امریکی رہنماؤں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 26/11 کے ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے قصورواروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔"
مزید پڑھیں: جے شنکر نے ایس سی او اجلاس میں شہباز شریف کے سامنے پاکستان پر تنقید کی
پاکستانی نژاد تاجر تہور حسین رانا پر 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس میں چھ امریکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کے لیے رانا نے پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی مدد کی تھی۔
اس کا تعلق پاکستانی نژاد امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی سے ہے، جو حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، جس پر پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کا بھی الزام ہے۔
بیان میں القاعدہ، آئی ایس آئی ایس، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں رہنماؤں کے عزم کا ذکر کیا گیا۔ شفقت علی خان نے کہا کہ "پاکستان کو بھارت کو فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بہت تشویش ہے۔ ایسے اقدامات سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھتا ہے اور تزویراتی استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے حصول میں مددگار نہیں ہیں۔"
پاکستان میں ایرانی صدر کی مسئلہ کشمیر پر خاموشی کا کیا مطلب؟ - Iranian President in Pakistan