اترپردیش میں بنگلہ دیش کے رفیوجیوں کے خلاف کارروائی کے نام پر بنگال سے گئے ورکروں کی گرفتاری کی وجہ سے مالدہ اور مرشدآباد اور دیگر اضلاع میں خوف کا عالم ہے اور بڑی تعداد میں اترپردیش میں کام کرنے والے بنگالی مزدورگھر لوٹ رہے ہیں۔
ایک رپورٹ مطابق گرفتاری کے خوف سے صرف لکھنو شہر سے 300ورکر بھاگ کر مالدہ اور مرشدآباد آگئے ہیں۔
حقوق انسانی کی سرگرم ممبر اور مشہور وکیل اسماء عزت نے بتایا کہ لکھنو پولس نے بڑی تعداد میں ہوٹلوں میں کام کرنے والے یومیہ ورکروں کو گرفتار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تریومیہ ورکر شہر کے مشہور ہوٹل میں ”دسترخوان“ ”نوشی جان دربار“ اور ”اوپن ائیر ریسٹورنٹ شامل ہیں۔
اسماعزت نے بتایا کہ ان ورکروں کے خلاف کئی سخت دفعات لگائے گئے ہیں جس میں 157،148،149،504اور307شامل ہیں، انہوں نے بتایاکہ زیادہ تر ورکروں کو شہریت ترمیمی ایکٹ سے متعلق کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔
اسماء عزت نے بتایا کہ ان ورکروں کے ساتھ بری طرح سے مارپیٹ کی گئی ہے۔ جبکہ پولیس کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں یہ نوجوان دارالحکومت میں اپنے ہوٹلوں میں کام کرتے تھے اور جن کا احتجاج سے کوئی تعلق نہین تھا، ہائی کورٹ کی وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن اسما عزت نے کہا کہ پیشہ سے ویٹر ساگر علی عرف عارف الاسلام جو ہریش چندر پور مالدہ (مغربی بنگال) کے رہنے والا ہیں، اپنے کان کے آپریشن کے بعد سے ہی بیمار ہے لیکن گرفتاری کے وقت پولیس نے اس کع جم کر مارپیٹ کی ہے۔
جس کی وجہ سے اس کی تکلیف بڑھ گئی ہے ساگر کے جگر میں انفیکشن ہے جس کی وجہ سے وہ جیل میں بہت پریشانی کا سامنا کررہا ہے۔
اسما عزت کا کہنا ہے کہ نوشی جان ریستراں کے مالک اور آوپن ایئر ریسٹورنٹ کے مالک شمیم شمسی نے بتایا کہ جیل میں بند تمام لڑکے محنتی اور ایماندار ہیں۔
یہ لوگ 5سال سے لکھنو میں مقیم ہیں ،یہ لڑکے احتجاج میں بھی شامل نہیں تھے، لیکن پولیس نے انہیں کمروں سے گرفتار کیا ہے۔
پیشے سے ویٹر خیرالاسلام اور صالح کو جو ہرچندررپور مالدہ، مغربی بنگال کے رہنے والا ہے پولیس ان دونوں بھائی کو گرفتار کرکے تھانہ لے گئی اور بہت مارپیٹ کرنے کے بعد جیل بھیج دیا۔