ہفتہ کو جھانسی سے لاش لے جانے کے بعد پولیس اسد کی لاش کو لے کر پریاگ راج کے کسری مساری قبرستان پہنچی۔ تھوڑی دیر بعد عتیق احمد کے فرزند کی تدفین عمل میں آئی۔ پولیس نے صرف قریبی رشتہ داروں کو ہی آخری رسومات کی ادائیگی میں شرکت کی اجازت دی تھی۔ اسد کے ماموں اور خالو بھی قبرستان پہنچے تھے۔ پولیس نے جنازے میں صرف 35 رشتہ داروں کو شرکت کی اجازت دی تھی۔ ڈی سی پی ستیش چندرا نے کہا کہ فورس بڑی تعداد میں تعینات کی گئی ہے۔ پی اے سی اور آر اے ایف کے اہلکار بھی موجود ہیں۔ جنازے میں صرف قریبی رشتہ داروں کو شرکت کی اجازت ہے۔ عتیق احمد کے گھر میں بھی غیر ضروری ہجوم کی اجازت نہیں ہے۔ عتیق کے حامیوں کو اسد کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد کے فرزند اسد انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے کے بعد ہفتہ کو ان کی آخری رسومات ادا کی جانی تھی۔ عتیق کے حامی جمعہ سے ہی ان کے گھر کے قریب جمع ہو رہے تھے تاکہ اسد کی تدفین اور جنازے میں شریک ہوسکیں۔ عتیق احمد اور ان کے اہل خانہ جیل میں ہوں یا پھر پولیس کی حراست میں، لیکن چار مرتبہ کے رکن اسمبلی اور ایک دفعہ کے رکن پارلمینٹ عتیق کے حامی ان کے بیٹے کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ حامیوں کے جمع ہونے کے امکان کے پیش نظر پولیس نے عتیق احمد کے گھر سے لے کر قبرستان تک سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے۔
مزید پڑھیں:Ashraf on Asad Encounter اسد کے انکاؤنٹر پر چچا کا رد عمل، اللہ کی امانت تھی، اس نے واپس لے لیا
اسی دوران عتیق احمد اور ان کے بیٹے علی احمد کی جانب سے جنازے میں شرکت کی اجازت کے لیے عدالت میں درخواست دی گئی لیکن پولیس نے عجلت سے کام لیتے ہوئے اسد کی لاش قبرستان لے آئی جہاں انہیں سپرد خاک کیا۔ عتیق احمد اپنے فرزند اسد کے آخری دیدار سے محروم رہے۔