ETV Bharat / state

Allahabad High Court order on Second Marriage بیوی، بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر مسلمانوں کو دوسری شادی کا حق نہیں، الہ آباد ہائی کورٹ

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جو مسلمان بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے انہیں دوسری شادی کا حق نہیں ہے۔ Muslim second marriage right

الہ آباد ہائی کورٹ
الہ آباد ہائی کورٹ
author img

By

Published : Oct 11, 2022, 10:00 PM IST

پریاگراج: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم میں کہا ہے کہ اسلامی قانون ایک مسلمان کو ایک بیوی رہتے ہوئے دوسری شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ مسلم کو بیوی کی مرضی کے خلاف کورٹ کے ذریعے سے اسے ساتھ رہنے کے لیے مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ جو مسلمان بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے اسے دوبارہ شادی کا حق نہیں ہے۔

یہ فیصلہ جسٹس ایس پی کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار کی ڈویژن بنچ نے عزیز الرحمن کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرنا پہلی بیوی کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عدالت پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اسے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتی ہے تو یہ عورت کے باوقار زندگی اور ذاتی آزادی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔

عدالت نے قرآن مجید کی سورہ 4 آیت 3 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی اور بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرسکتا تو اسے دوبارہ شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ فیملی کورٹ نے سنت کبیر نگر کی پہلی بیوی حمید النساء عرف شفیق النساء کو شوہر کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف رہنے کے لیے حکم دینے سے انکار کرنے کو صحیح قرار دیا ہے۔

عدالت نے اسلامی قوانین کے خلاف فیملی کورٹ کے فیصلے اور حکم نامے کو منسوخ کرنے کے لیے دائر پہلی اپیل خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ہر شہری کو باوقار زندگی اور ذاتی زندگی گزارنے کی آزادی کا بنیادی حق دیتا ہے۔

آرٹیکل 14 سب کو برابری کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 15(2) جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔ کوئی پرسنل لاء یا عمل آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ پرسنل لاء کے نام پر شہریوں کے آئینی بنیادی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ جس معاشرے میں خواتین کی عزت نہ ہو اسے مہذب نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین کی عزت کرنے والا ملک ہی مہذب ملک کہلا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو خود ایک بیوی رکھتے ہوئے دوسری شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ قرآن اس مسلمان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا جو ایک بیوی کے ساتھ انصاف نہ کرے ۔

مقدمے کے حقائق کے مطابق عزیز الرحمن اور حمید النساء کی شادی 12 مئی 1999 کو ہوئی تھی۔ مخالف بیوی اپنے والد کی ایک ہی اولاد ہے۔ اس کے والد نے اپنی غیر منقولہ جائیداد اپنی بیٹی کو عطیہ کر دی۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے 93 سالہ والد کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسے بتائے بغیر شوہر نے دوسری شادی کر لی، اس کے بھی بچے ہیں۔ شوہر نے ساتھ رہنے پر بیوی کے خلاف فیملی کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا۔ فیملی کورٹ نے شوہر کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو یہ اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں : marriage dispute: شوہر کی دوسری شادی میں بیوی کا ہائی وولٹیج ڈرامہ

پریاگراج: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم میں کہا ہے کہ اسلامی قانون ایک مسلمان کو ایک بیوی رہتے ہوئے دوسری شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ مسلم کو بیوی کی مرضی کے خلاف کورٹ کے ذریعے سے اسے ساتھ رہنے کے لیے مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ جو مسلمان بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے اسے دوبارہ شادی کا حق نہیں ہے۔

یہ فیصلہ جسٹس ایس پی کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار کی ڈویژن بنچ نے عزیز الرحمن کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرنا پہلی بیوی کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عدالت پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اسے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتی ہے تو یہ عورت کے باوقار زندگی اور ذاتی آزادی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔

عدالت نے قرآن مجید کی سورہ 4 آیت 3 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی اور بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرسکتا تو اسے دوبارہ شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ فیملی کورٹ نے سنت کبیر نگر کی پہلی بیوی حمید النساء عرف شفیق النساء کو شوہر کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف رہنے کے لیے حکم دینے سے انکار کرنے کو صحیح قرار دیا ہے۔

عدالت نے اسلامی قوانین کے خلاف فیملی کورٹ کے فیصلے اور حکم نامے کو منسوخ کرنے کے لیے دائر پہلی اپیل خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ہر شہری کو باوقار زندگی اور ذاتی زندگی گزارنے کی آزادی کا بنیادی حق دیتا ہے۔

آرٹیکل 14 سب کو برابری کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 15(2) جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔ کوئی پرسنل لاء یا عمل آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ پرسنل لاء کے نام پر شہریوں کے آئینی بنیادی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ جس معاشرے میں خواتین کی عزت نہ ہو اسے مہذب نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین کی عزت کرنے والا ملک ہی مہذب ملک کہلا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو خود ایک بیوی رکھتے ہوئے دوسری شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ قرآن اس مسلمان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا جو ایک بیوی کے ساتھ انصاف نہ کرے ۔

مقدمے کے حقائق کے مطابق عزیز الرحمن اور حمید النساء کی شادی 12 مئی 1999 کو ہوئی تھی۔ مخالف بیوی اپنے والد کی ایک ہی اولاد ہے۔ اس کے والد نے اپنی غیر منقولہ جائیداد اپنی بیٹی کو عطیہ کر دی۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے 93 سالہ والد کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسے بتائے بغیر شوہر نے دوسری شادی کر لی، اس کے بھی بچے ہیں۔ شوہر نے ساتھ رہنے پر بیوی کے خلاف فیملی کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا۔ فیملی کورٹ نے شوہر کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو یہ اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں : marriage dispute: شوہر کی دوسری شادی میں بیوی کا ہائی وولٹیج ڈرامہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.