مہاتما گاندھی کے نظریات پر ویب ٹاک میں "مہاتما گاندھی، بھگوت گیتا اور تمام مذاہب کا ان کا تصور" موضوع پر لیکچر پیش کرتے ہوئے ہیں یونیورسٹی آف مشیگن، امریکہ کے پروفیسر مادھودیش پانڈے نے کہا کہ گاندھی جی کا نظریہ کہ عدم تشدد اور اہمسا سبھی مذاہب میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے، نے ہی انہیں اس نظریے کو جنگ آزادی میں استعمال کرنے کے لیے متحرک کیا انہوں نے کہا کہ اسلام، ہندو مت اور عیسائیت جیسے مختلف بڑے مذاہب کے مقدس کتابوں نے
گاندھی جی کی شخصیت سازی میں اہم رول ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ گاندھی جی کے دو دوست بھگوت گیتا کو اصل سنسکرت میں پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں جب کہیں دشواری پیش آئی تو انہوں نے اس کا مطلب گاندھی جی سے پوچھا لیکن گاندھی جی اس کا مطلب بتانے سے قاصر رہے کیونکہ انہوں نے خود ایسے سنسکرت یا گجراتی میں نہیں پڑھا تھا اس بات سے گاندھی جی کو پشیمانی محسوس ہوئی اور انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ نہ صرف
بھگوت گیتا بلکہ دیگر مذاہب کے مقدس کتابوں کو بھی پڑھیں گے۔
اپنے افتتاحی خطبہ میں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ گاندھی جی کبھی بھی ملک کے سربراہ نہیں بننا چاہتے تھے اور ایک سچے ہندو ہونے کے ساتھ ہی وہ چاہتے تھے کہ سبھی مذاہب کے لوگ باہمی اخوت کے ساتھ مل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی نیک نیتی کے ساتھ سیاست میں مذہب کو شامل کیا اور خلافت تحریک کی قیادت کی۔ وائس چانسلر نے مزید کہا گاندھی جی مذہبی بنیادوں پر ملک کو تقسیم کے سخت خلاف تھے۔
پروفیسر عبدالسلام نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ پروفیسر ایم رضوان خان نے شکریہ کے فرائض انجام دیے۔
اس سیریز کے تحت اگلا لیکچر 6 اگست کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فیصل دیوجی "گاندھی جی کی خاموشی" موضوع پر پیش کریں گے۔
اے ایم یو میں مہاتما گاندھی کے نظریات پر ویب ٹاک
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیراہتمام مہاتما گاندھی کے ڈیڑھ سو سالہ جنم دن کے موقع پر ان کے نظریات اور فلسفہ کے تعلق سے منعقدہ لیکچر سیریز کے تحت اولین لیکچر کا انعقاد آن لائن عمل میں آیا۔
مہاتما گاندھی کے نظریات پر ویب ٹاک میں "مہاتما گاندھی، بھگوت گیتا اور تمام مذاہب کا ان کا تصور" موضوع پر لیکچر پیش کرتے ہوئے ہیں یونیورسٹی آف مشیگن، امریکہ کے پروفیسر مادھودیش پانڈے نے کہا کہ گاندھی جی کا نظریہ کہ عدم تشدد اور اہمسا سبھی مذاہب میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے، نے ہی انہیں اس نظریے کو جنگ آزادی میں استعمال کرنے کے لیے متحرک کیا انہوں نے کہا کہ اسلام، ہندو مت اور عیسائیت جیسے مختلف بڑے مذاہب کے مقدس کتابوں نے
گاندھی جی کی شخصیت سازی میں اہم رول ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ گاندھی جی کے دو دوست بھگوت گیتا کو اصل سنسکرت میں پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں جب کہیں دشواری پیش آئی تو انہوں نے اس کا مطلب گاندھی جی سے پوچھا لیکن گاندھی جی اس کا مطلب بتانے سے قاصر رہے کیونکہ انہوں نے خود ایسے سنسکرت یا گجراتی میں نہیں پڑھا تھا اس بات سے گاندھی جی کو پشیمانی محسوس ہوئی اور انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ نہ صرف
بھگوت گیتا بلکہ دیگر مذاہب کے مقدس کتابوں کو بھی پڑھیں گے۔
اپنے افتتاحی خطبہ میں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ گاندھی جی کبھی بھی ملک کے سربراہ نہیں بننا چاہتے تھے اور ایک سچے ہندو ہونے کے ساتھ ہی وہ چاہتے تھے کہ سبھی مذاہب کے لوگ باہمی اخوت کے ساتھ مل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی نیک نیتی کے ساتھ سیاست میں مذہب کو شامل کیا اور خلافت تحریک کی قیادت کی۔ وائس چانسلر نے مزید کہا گاندھی جی مذہبی بنیادوں پر ملک کو تقسیم کے سخت خلاف تھے۔
پروفیسر عبدالسلام نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ پروفیسر ایم رضوان خان نے شکریہ کے فرائض انجام دیے۔
اس سیریز کے تحت اگلا لیکچر 6 اگست کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فیصل دیوجی "گاندھی جی کی خاموشی" موضوع پر پیش کریں گے۔