علی گڑھ: سرسید احمد خاں کی تحریروں اور مقالوں کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ یہ تحریریں ادارہ ساز ذہن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہمیں جمود کی حالت سے باہر نکال سکتی ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور کیرالہ کے گورنر عارف محمد خاں کے بدست سرسید اکاڈمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر نئی دہلی میں’مقالات سرسید' کی چار جلدوں کا اجراء عمل میں آیا۔ Maqalat E SIR Syed 4 Volume-Launch By Governor In Aligarh
یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مقالات سرسید کی اشاعت پر سرسید اکاڈی اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتے ہوۓ عارف محمد خاں نے کہا کہ سرسید نے ایسے دور میں اپنی اصلاحی و تعلیمی تحریک شروع کی جب انگریزی اور جدید تعلیم کو برا قرار دے دیا گیا تھا اور قدامت پرستی عام تھی۔ ہندوستان میں پہلی بار سرسید کے ہاتھوں وہ جمود ٹوٹا۔
انھوں نے کہاکہ سرسید کے اندر زبر دست قرآن فہمی تھی اور انھوں نے سب سے پہلا زور جدید تعلیم کے حصول پر دیا۔ جوش پر ہوش کا غلبہ سرسید کی فکر کا حاصل ہے۔ گورنر نے تہذیبی تاریخ، ملت وقوم کے سوال اور حالات حاضرہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تقلید، فکری جمود کا باعث ہوتی ہے اور یہ تخلیق کی ضد ہے۔ انھوں نے سائنسی علوم، ٹکنالوجی اور جدید علوم کے حصول پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ کائنات کے مظاہر پر تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے، جو عقل و خرد کا استعمال کرنے اور سائنسی علوم میں شغف پیدا کرنے کی بھی دعوت ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛AMU in Shanghai Rankings شنگھائی رینکنگ میں اے ایم یو مسلسل تیسری بار جگہ بنانے میں کامیاب
عارف محمد خان نے سر سید کے خلاف جاری فتوی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کے دین و ایمان کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا معقولیت ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا "ججمنٹل ہونا چھوڑ دیجئے سب کے ساتھ آپ کے معاملے ٹھیک ہوجائیں گے۔ سر سید اکاڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ ستر برس قبل پاکستان سے شائع ہونے والی مقالات سر سید مولانا اسمائل پانی پتی کی کتاب ہے جو 16 جلدوں پر مشتمل تھی اور اسی کتاب کو یونیورسٹی کے صد سالہ تقریبات کے موقع پر سید اکاڈمی نے دوبارہ ترتیب دے کر شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی پہلے دو اور اب چار جلدوں کا اجراء کیرالہ کے گورنر محمد عارف خاں کے بدست دہلی میں 28 اکتوبر کو عمل میں آیا۔
مقالات سر سید کی چھہ جلدوں کے تدوین کرنے والے ڈاکٹر مختار عالم نے بتایا کہ جس زمانے میں مولانا اسمائل پانی پتی نے مقالات سر سید پر کام کیا تھا اس وقت ذرائع کم تھے پرنٹ میڈیا کے، علیگڑھ سے بھی اس وقت کچھ لوگ ایسے تھے جو مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے جس میں عربی، فارسی اور تاریخ کے اعتبار سے بہت سی غلطیاں تھی اسی لئے اس کا دوبارہ شائع ہونا لازمی کام ہوگیا اسی لئے اس کو دوبارہ اشاعت پذیر کیا گیا۔ بانی درسگاہ سرسید احمد خاں کی تحریروں اور مقالوں کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ یہ تحریریں ادارہ ساز ذہن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہمیں جمود کی حالت سے باہر نکال سکتی ہیں۔ اس لئے نوجوان نسل سمیت اساتذہ کو بھی سر سید کو پڑھنا چاہیے تاکہ ان کے مشن کو عملی جامہ پہنایا جا سکے کیوں کہ سرسید کو پڑھ کر ہی ان کے مشن کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔Maqalat E SIR Syed 4 Volume-Launch By Governor In Aligarh