عوام کی جانب سے بھی پولیس کی اس فرقہ پرست کاروائی پر تنقدیں کی جارہی ہے اور اس مسئلہ پر وزیراعلیٰ کے سی آر سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
کل حیدرآباد کے پرانے شہر میں پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز حرکت کی گئی جس میں سادہ لباس میں پولیس افسر ماتھے پر تلک لگائے موٹر سائیکل چلا رہا تھا جبکہ موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر ایک اور مرد پولیس عہدیدار برقعہ پہنے بیٹھا تھا اور یہ لوگ اقلیتی علاقوں میں گشت کر رہے تھے۔
حقیقت سے ناواقف بعض مسلم نوجوانوں نے برقعہ پوش خاتون کو غیرمسلم شخص کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کیا۔
جس کے بعد منصوبہ بند طریقہ سے پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔
واقعہ کے بعد علاقہ میں کشیدگی دیکھی گئی اور گرفتار شدہ افراد کے ارکان خاندان پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور احتجاج کرنے لگے۔
مقامی رکن اسمبلی کوثر محی الدین بھی پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔ انسپکٹر اشوک کمار نے رکن اسمبلی کو بتایا کہ اعلیٰ عہدیداروں کی ہدایت پر اس طرح کی حرکت کی گئی۔
اس موقع پر کوثر محی الدین نے پولیس عہدیداروں سے سوال کیا کہ آیا اگر کوئی داڑھی اور ٹوپی پہنے شخص کو کسی ہندو لڑکی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھاکر ہندو آبادی والے علاقوں میں گشت کی جائے گی۔
پولیس کے مطابق جذباتی مسلم نوجوانوں کو پھانسنے کےلیے اس طرح کی کاروائی کی گئی۔
مقامی افراد نے اس واقعہ پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلم وزیر داخلہ ہونے کے باوجود تلنگانہ پولیس کی فرقہ پرستی پر مبنی اس حرکت سے ایسا لگتا ہے کہ محکمہ پر ریاستی حکومت کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ حیدرآباد میں بونال تہوار چل رہا ہے۔ ماہ اگست میں بقرعید ہے اور ستمبر میں گنیش تہوار منایا جائے گا۔ ایسے میں پولیس کو ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہئے تاکہ شہر میں امن و ضبط کی صورتحال برقرار رہ سکے۔
یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہوگا کہ رمضان میں شہر کے ایک شوروم پر سندور لگائی خاتون اور ٹوپی پہنے مرد کی تصویر لگائی گئی تھی جس پر ہندوتوا تنظیموں نے اعتراض کیا اور دکاندار کو دھمکیاں دی تھیں۔ شوروم کے مالک نے فوری اس بیانر کو ہٹا دیا تھا۔ لیکن اس مسئلہ پر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ دوکاندار کو دھمکیاں دی گئی تھی۔
حیدرآباد پولیس کی اشتعال انگیزی، شہریوں کا احتجاج
حیدرآباد پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز حرکت کی شہر کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے مذمت کی ہے۔
عوام کی جانب سے بھی پولیس کی اس فرقہ پرست کاروائی پر تنقدیں کی جارہی ہے اور اس مسئلہ پر وزیراعلیٰ کے سی آر سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
کل حیدرآباد کے پرانے شہر میں پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز حرکت کی گئی جس میں سادہ لباس میں پولیس افسر ماتھے پر تلک لگائے موٹر سائیکل چلا رہا تھا جبکہ موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر ایک اور مرد پولیس عہدیدار برقعہ پہنے بیٹھا تھا اور یہ لوگ اقلیتی علاقوں میں گشت کر رہے تھے۔
حقیقت سے ناواقف بعض مسلم نوجوانوں نے برقعہ پوش خاتون کو غیرمسلم شخص کے ساتھ دیکھ کر اعتراض کیا۔
جس کے بعد منصوبہ بند طریقہ سے پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔
واقعہ کے بعد علاقہ میں کشیدگی دیکھی گئی اور گرفتار شدہ افراد کے ارکان خاندان پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور احتجاج کرنے لگے۔
مقامی رکن اسمبلی کوثر محی الدین بھی پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔ انسپکٹر اشوک کمار نے رکن اسمبلی کو بتایا کہ اعلیٰ عہدیداروں کی ہدایت پر اس طرح کی حرکت کی گئی۔
اس موقع پر کوثر محی الدین نے پولیس عہدیداروں سے سوال کیا کہ آیا اگر کوئی داڑھی اور ٹوپی پہنے شخص کو کسی ہندو لڑکی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھاکر ہندو آبادی والے علاقوں میں گشت کی جائے گی۔
پولیس کے مطابق جذباتی مسلم نوجوانوں کو پھانسنے کےلیے اس طرح کی کاروائی کی گئی۔
مقامی افراد نے اس واقعہ پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلم وزیر داخلہ ہونے کے باوجود تلنگانہ پولیس کی فرقہ پرستی پر مبنی اس حرکت سے ایسا لگتا ہے کہ محکمہ پر ریاستی حکومت کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ حیدرآباد میں بونال تہوار چل رہا ہے۔ ماہ اگست میں بقرعید ہے اور ستمبر میں گنیش تہوار منایا جائے گا۔ ایسے میں پولیس کو ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہئے تاکہ شہر میں امن و ضبط کی صورتحال برقرار رہ سکے۔
یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہوگا کہ رمضان میں شہر کے ایک شوروم پر سندور لگائی خاتون اور ٹوپی پہنے مرد کی تصویر لگائی گئی تھی جس پر ہندوتوا تنظیموں نے اعتراض کیا اور دکاندار کو دھمکیاں دی تھیں۔ شوروم کے مالک نے فوری اس بیانر کو ہٹا دیا تھا۔ لیکن اس مسئلہ پر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ دوکاندار کو دھمکیاں دی گئی تھی۔