سپریم کورٹ کے وکیل کا مشورہ ہے کہ حراست میں ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لئے وکلاء تک جلد رسائی ضروری ہے۔
اجے ورما کا کہنا ہے کہ 'مختلف اطلاعات کے باوجود جدید تکنیکز کے ذریعے پولیس معاملات کی جلد پیروی نہیں کرتی اور تفتیش کے دوران پرانے تشدد کے نظام پر ہی کاربند ہوتی ہے'۔
واضح رہے کہ تمل ناڈو میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں باپ بیٹے جئے راج اور بینکس کے قتل کے بعد بھارتی جیلوں میں پولیس کی بربریت ایک بار پھر منظرعام پر آگئی ہے۔
اس واقعے کے بعد عوام اور پولیس کے درمیان تعلقات کی بحث کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔
اسی دوران پولیس میں اصلاحات کا مطالبہ زور و شور سے بڑھتا جارہا ہے، تا کہ جن لوگوں پر ابھی تک الزامات عائد ہیں؛ وہ قانونی چارہ جوئی کے بجائے پولیسا ظلم و زیادتی کا شکار نہ بن سکیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل اور قیدی اصلاحات کے قومی فورم کے سابق کنوینر اجے ورما کا کہنا ہے کہ 'پولیس کا خیال ہے کہ اگر ہمیں کسی معاملے کو حل کرنا ہے تو ہمیں طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اس کے برخلاف طاقت کا بے جا استعمال تفتیش کا کوئی موثر طریقہ نہیں ہوسکتا'۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ورما نے کہا کہ 'محکمہ پولیس میں جدید اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ متعدد مطالعاتی رپورٹز میں موثر تحقیقات کے لئے جدید تکنیک کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم پولیس اس پر عمل نہیں کرتی ہے'۔
گزشتہ 26 جون کو تشدد کے خلاف نیشنل کمپین نامی ایک این جی او نے ایک رپورٹ 'بھارت میں تشدد پر سالانہ رپورٹ' شائع کی۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پولیس کی تحویل میں سنہ 2019 میں 125 اموات ہوچکی ہیں۔ جن میں 93 تشدد کی وجہ سے اور 24 مشتبہ وجوہات کی بنا پر تھیں۔
حکومت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کا اعداد و شمار 2017 کے بعد سے حراست میں ہونے والی موت پر دستیاب نہیں ہے۔ سنہ 2016 کے اعداد و شمار بھی سرکاری ویب سائٹ سے غائب ہیں۔
اجے ورما کا کہنا ہے کہ 'بھارت میں اس وقت پولیس کی اذیت سے نمٹنے کے لئے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔ یہاں تشدد، ظالمانہ گرفتاری، غیر انسانی اور ہتک عزت آمیز سلوک یا سزا کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے'۔
انھوں نے بتایا ہے کہ 'تشدد کی روک تھام کا بل سنہ 2010 میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا لیکن کبھی بھی سیاسی پارٹی نے اس پر اتفاق رائے کا اظہار نہیں کیا'۔
ورما کے مطابق کوئی بھی پولیس افسر کسی بھی پولیس افسر کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کراسکتا ہے، کیونکہ پولیس اپنے ہی افسران کے خلاف اندراج کرنے سے گریز کرتی ہے'۔
ان کے مطابق 'وکیل تک جلد رسائی' وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ملزم، پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی کی مدد لے سکتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں پولیس تشدد سے متعلق فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ جن کو اصولی رہنما خطوط کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ پہلے ہی ایک فیصلہ پاس کر چکی ہے، جس کے تحت پولیس تشدد سات برس تک قابل سزا جرم ہوگا اور جوڈیشل مجسٹریٹ پر بھی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
جیل اصلاحات کے لئے کام کرنے والے ایک وکیل کی حیثیت سے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ورما نے اترپردیش کی ایک مثال پیش کی جہاں ایک شخص کو گرفتار کرکے تشدت کیا گیا تھا۔
ورما نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'جج قانون کے نگہبان ہیں۔ انہیں اپنا ذہن اپنانا ہوگا اور کیس کے لحاظ سے ریمانڈ سے انکار کر سکتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اذیت سے متعلق نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف انڈیا کے رہنما خطوط پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا ہے- جس کے نتیجے میں حراستی اموات ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو بھی اخفا رکھا جاتا ہے۔ پوسٹ مارٹم کروانا پڑتا ہے لیکن کسی بھی چیز کی سختی سے پیروی نہیں کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: تمل ناڈو حراستی قتل: مزید چار پولیس اہلکار گرفتار
آخر میں انہوں نے بھارت میں تشدد کے واقعات کی کم رپورٹنگ پر بھی اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔