ETV Bharat / state

کیا اس بار 13 جولائی کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت ملے گی؟

13 جولائی 1931 کو سرینگر کے سینٹرل جیل میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے افراد کی یاد میں ہر سال کشمیر میں یوم شہداء منایا جاتا رہا ہے۔ اور اس دن کے حوالے سے مزار شہداء پر گل باری کی تقریب حکومتی سطح پر منائی جاتی رہی ہے۔ لیکن 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کئے جانے کے بعد مزار شہداء میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔

کیا اس مرتبہ 13 جولائی کے شہداء کو خراج پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
کیا اس مرتبہ 13 جولائی کے شہداء کو خراج پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
author img

By

Published : Jul 12, 2021, 5:57 PM IST

تقریباً نوے برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر میں گذشتہ برس یوم شہداء کے موقع پر پراسرار خاموشی چھائی رہی۔ شہر سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزار شہداء میں 13 جولائی 1931 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا جا سکا۔

اس دن شہر خاص جانے والے تمام راستوں کو خاردار تاروں سے سیل کیا گیا تھا۔ جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے پولیس کے علاوہ فورسز کی بھاری تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔

اگرچہ یہاں کے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مزار شہدا پر فاتحہ پڑھنے کی غرض سے انتظامیہ سے اجازت طلب کی تھی۔ لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، جس پر اس وقت نیشنل کانفرس، پی ڈی پی اور دیگر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ مرکزی سرکار سیاسی طور کشمیریوں کو دبانے کے لیے کورونا وائرس کا بہانا بنا رہی ہے۔

کیا اس مرتبہ 13 جولائی کے شہداء کو خراج پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
13 جولائی 1931 کو سرینگر کے سینٹرل جیل میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے افراد کی یاد میں ہر سال کشمیر میں یوم شہداء منایا جاتا رہا ہے۔ اور اس دن کے حوالے سے مزار شہداء پر گل باری کی تقریب حکومتی سطح پر منائی جاتی رہی ہے۔
5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کئے جانے، جموں وکشمیر اور لداخ کو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کیے جانے کے بعد مزار شہداء واقع نقشبندی صاحب میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔تاہم اب کی مرتبہ یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہوگا کہ مرکز کی جانب سے دل اور دلی کی دوری کو کم کرنے کی خاطر اٹھائے جانے والے اقدامات کے طور پر جموں و کشمیر کے مین اسٹریم جماعتوں کو مزار شہداء پر حاضری دینے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں!
کشمیر کی تاریخ میں یہ ایسا واحد واقع ہے جس پر مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں اور علیٰحدگی پسندوں کا اتفاق ہے۔ لیکن بی جے پی 1931 میں پیش آئے واقعہ سے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ رکھتی ہے۔
جموں وکشمیر کو مرکزی زیر انتظام خطے بنائے جانے کے بعد انتظامیہ نے شہداء کی یاد میں 13 جولائی کو منائی جانے والی سرکاری تعطیل ختم کر دی جبکہ 26 اکتوبر کو یوم الحاق پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا ہے۔
اُدھر علیٰحدگی پسند رہنما 5 اگست 2019 سے یا تو قید میں ہیں یا تو انہیں گھروں میں ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔
میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے کورونا وائرس وبا اور چیئرمین محمد عمر فاروق کی مسلسل خانہ نظر بندی کے پیش نظر 13 جولائی کے موقع پر کوئی اجتماعی جلسہ یا تقریب منعقد نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: یوم شہداء آج، تقاریب پر پابندی


بعض واقعات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں وقت اور تاریخ کا دھارا اپنا رخ تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسے ہی واقعات میں سے ایک واقعہ 13 جولائی 1931 کو سینٹرل جیل سرینگر کے سامنے پیش آیا۔

اس وقت ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کسی نے اذان دی تو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے سپاہیوں نے فائرنگ کردی۔ اس کے نتیجے میں جیل کے اندر یکے بعد دیگر 22 افراد کو ہلاک کردیا گیا اور وادی بھر میں احتجاج کی لہر پھیل گئی۔ جسے دبانے کی کارروائیوں میں مزید ہلاکتیں ہوئیں۔

تقریباً نوے برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر میں گذشتہ برس یوم شہداء کے موقع پر پراسرار خاموشی چھائی رہی۔ شہر سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزار شہداء میں 13 جولائی 1931 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا جا سکا۔

اس دن شہر خاص جانے والے تمام راستوں کو خاردار تاروں سے سیل کیا گیا تھا۔ جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے پولیس کے علاوہ فورسز کی بھاری تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔

اگرچہ یہاں کے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مزار شہدا پر فاتحہ پڑھنے کی غرض سے انتظامیہ سے اجازت طلب کی تھی۔ لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، جس پر اس وقت نیشنل کانفرس، پی ڈی پی اور دیگر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ مرکزی سرکار سیاسی طور کشمیریوں کو دبانے کے لیے کورونا وائرس کا بہانا بنا رہی ہے۔

کیا اس مرتبہ 13 جولائی کے شہداء کو خراج پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
13 جولائی 1931 کو سرینگر کے سینٹرل جیل میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے افراد کی یاد میں ہر سال کشمیر میں یوم شہداء منایا جاتا رہا ہے۔ اور اس دن کے حوالے سے مزار شہداء پر گل باری کی تقریب حکومتی سطح پر منائی جاتی رہی ہے۔
5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کئے جانے، جموں وکشمیر اور لداخ کو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کیے جانے کے بعد مزار شہداء واقع نقشبندی صاحب میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔تاہم اب کی مرتبہ یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہوگا کہ مرکز کی جانب سے دل اور دلی کی دوری کو کم کرنے کی خاطر اٹھائے جانے والے اقدامات کے طور پر جموں و کشمیر کے مین اسٹریم جماعتوں کو مزار شہداء پر حاضری دینے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں!
کشمیر کی تاریخ میں یہ ایسا واحد واقع ہے جس پر مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں اور علیٰحدگی پسندوں کا اتفاق ہے۔ لیکن بی جے پی 1931 میں پیش آئے واقعہ سے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ رکھتی ہے۔
جموں وکشمیر کو مرکزی زیر انتظام خطے بنائے جانے کے بعد انتظامیہ نے شہداء کی یاد میں 13 جولائی کو منائی جانے والی سرکاری تعطیل ختم کر دی جبکہ 26 اکتوبر کو یوم الحاق پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا ہے۔
اُدھر علیٰحدگی پسند رہنما 5 اگست 2019 سے یا تو قید میں ہیں یا تو انہیں گھروں میں ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔
میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے کورونا وائرس وبا اور چیئرمین محمد عمر فاروق کی مسلسل خانہ نظر بندی کے پیش نظر 13 جولائی کے موقع پر کوئی اجتماعی جلسہ یا تقریب منعقد نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: یوم شہداء آج، تقاریب پر پابندی


بعض واقعات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں وقت اور تاریخ کا دھارا اپنا رخ تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسے ہی واقعات میں سے ایک واقعہ 13 جولائی 1931 کو سینٹرل جیل سرینگر کے سامنے پیش آیا۔

اس وقت ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کسی نے اذان دی تو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے سپاہیوں نے فائرنگ کردی۔ اس کے نتیجے میں جیل کے اندر یکے بعد دیگر 22 افراد کو ہلاک کردیا گیا اور وادی بھر میں احتجاج کی لہر پھیل گئی۔ جسے دبانے کی کارروائیوں میں مزید ہلاکتیں ہوئیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.