پی ڈی پی کے اندر ان دنوں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے ۔آپسی رسہ کشی اور پارٹی رہنماؤں کے بیچ اختلاف رائے اپنے عروج پر نظر آرہا ہے ۔جس کے باعث یکے بعد دیگرے اہم چہرے پارٹی کو خیر باد کہہ رہے ہیں ۔
اگرچہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پی ڈی پی کے کئی بڑے رہنما پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں وہیں حال ہی میں پارٹی کو اس وقت مزید دھچکہ لگا جب سینیئر رہنما اور سابق ممبر قانون ساز اسمبلی خورشید عالم نے پی ڈی پی کی بنیادی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ ابھی خورشید عالم کے مستعفی ہونے کی خبریں گشت ہی کررہی تھی کہ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے یاسر ریشی نے بھی باضابطہ اپنا استعفی پارٹی سربراہ کو روانہ کیا۔
ادھر جموں صوبے کے راجوری سے تعلق رکھنے والے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم چہرے سریند چودھری اس سے قبل ہی پارٹی کو ٹاٹا بائی بائی کر چکے ہیں ۔ایسے میں اب محبوبہ مفتی کی سربراہی والی پی ڈی پی اندورنی خلفشار کی شکار ہوکر آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جارہی ہے۔
خیر باد کہنے والے رہنما بر ملا طور اس کا اظہار کر رہے ہیں کہ پی ڈی پی میں سیاسی نقطہ نظر اور حکمت عملی کا فقدان پایاجارہا ہے جبکہ کئی تو اختلاف رائے کی وجہ سے پارٹی میں دم گھوٹنے کی باتیں بھی کہہ رہیں ہیں۔ ابتک 90 فیصد پرانے اور بڑے رہنما پی ڈی پی کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ جن میں سے کئی نامور سیاست دانوں نے یا تو خود کی پارٹی بنالی ہے یا انہوں نے دیگر مقامی پارٹیوں کا دامن تھاما ہے۔
اس صورتحال کے بیچ اگرچہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر رہنما پارٹی کے اندر بغاوت اور آپسی اختلاف کا اعتراف کرنے سے گریز کررہے ہیں لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ سینیئر رہنماؤں کی جانب سے پارٹی کو اس طرح چھوڑے جانے کا طرز عمل پی ڈی پی کے مستقبل کو مخدوش بنا سکتا ہےجس سے پارٹی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایک جانب پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سمن کا سامنا ہے وہیں دوسری جانب ان کے قریبی سمجھے جانے والے پارٹی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ بہرحال اس طرح کی صورتحال کو پارٹی کے لئے اچھا نہیں کہا جاسکتا ہے۔