بارہمولہ: شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بدھ کے روز الزام لگایا کہ بارہمولہ کے رکن پارلیمنٹ انجینیئر رشید کو 2018 میں معلوم تھا کہ حکومت آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن قانونی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش رہنے کا انتخاب کیا۔
ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبد اللہ نے عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے سربراہ پر جذباتی سیاست کھیلنے کا الزام لگایا اور انہیں حکومت ہند کی جانب سے کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جوڑ توڑ کا کام سونپا گیا، یہ عجیب بات ہے کہ انجینیئر رشید نے حالیہ انٹرویوز میں دعویٰ کیا کہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک گھنٹہ ملاقات کی، جس کے دوران مودی نے ان سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے میں مدد کرنے کو کہا۔ عمر عبد اللہ نے کہا کہ ''رشید نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ وہ مودی کے تمام اچھے فیصلوں میں حمایت کرتے ہیں"۔
سابق وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ " اگر انجینیئر رشید 2018 میں یہ معاملہ اٹھاتے تو اس اقدام کے خلاف لڑنے کے لیے قانونی اقدامات کیے جا سکتے تھے، وہ سپریم کورٹ جا سکتے تھے، شاید وہاں کوئی فیصلہ آتا جو کشمیر کی خصوصی حیثیت، جھنڈے اور آئین کو بچاتا، لیکن وہ خاموش رہے اور اب 2019 میں عوام کو تکلیف ہو رہی ہے۔
ایک مشہور فقرے کا حوالہ دیتے ہوئے این سی لیڈر نے کہا کہ ’’لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی‘‘۔ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ رشید کو مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر میں عوام اور ووٹوں کی تقسیم کرکے جذبات سے کھلواڑ کرنے کے لیے تفویض کیا گیا ہے۔
عمر عبد اللہ نے کہا کہ انجینئر رشید حریت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان کے قول و فعل کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں، وہ حریت کی شناخت کو ختم کرنے والوں کے ساتھ اور سندیپ ماوا جیسے لوگوں کے ساتھ صف بندی کرتے ہیں، جو یاسین ملک کی پھانسی کا انتظار کرتے ہوئے سرعام پریس کو بریف کرتے ہیں۔
عمر عبد اللہ نے انجینیئر رشید کو چیلنج کیا کہ اگر حکومت بنانے کی ضرورت پڑی تو وہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کریں، میں اب بھی ان کی اس تقریر کا انتظار کر رہا ہوں جس میں وہ حکومت سازی کے لئے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کو یکسر مسترد کرتے ہو۔