سری نگر: کشمیر کے سرکردہ مذہبی رہنما اور علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق اس وقت وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر مسلمانوں میں پائے جانے والے خدشات کے پس منظر میں نئی دہلی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ میرواعظ اور متحدہ مجلس علماء (ایم ایم یو) کے دیگر مذہبی رہنماؤں، جو کہ 45 مسلم مذہبی اداروں کا نمائندہ اتحاد ہے، نے 24 جنوری کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے چیئرمین جگدمبیکا پال سے ملاقات کی اور چھ نکاتی یادداشت پیش کی جس میں وقف میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
وقف (ترمیمی) بل 2024 گزشتہ سال اگست میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا گیا تھا۔ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے مطابق، اس بل کا مقصد وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرنا ہے، تاکہ وقف املاک کا انتظام و انصرام بہتر ہو اور ان کے انتظام میں درپیش مسائل اور چیلنجوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ اس بل میں ہندوستان میں وقف املاک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کی تجویز ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اس ترمیمی بل کو متعارف کرنے کا مقصد پچھلے ایکٹ کی خامیوں پر قابو پانا اور ایکٹ کا نام تبدیل کرنا، وقف کی اصطلاحوں کو اپ ڈیٹ کرنا، رجسٹریشن کے عمل کو بہتر بنانا، اور وقف ریکارڈ کے انتظام میں ٹیکنالوجی کے کردار کو بڑھانا جیسی تبدیلیاں متعارف کروا کر وقف بورڈ کی کارکردگی کو بڑھانا ہے۔
پورے ملک میں مسلمان اور ان کی نمائندہ تنظیمیں ایکٹ میں ان مجوزہ تبدیلیوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مذہبی پیشوا میر واعظ عمر فاروق اور دیگر مسلم تنظیموں نے بھی اپنے خدشات کو منظر عام پر لایا ہے۔ اسی پس منظر میں میرواعظ اور انکے ساتھی علماء نے 24 جنوری کو دلی کی پارلیمنٹ میں جے پی سی کے اراکین کے ساتھ ملاقات کی جنکی سربراہی کمیٹی کے چیئرمین جگ دمبیکا پال کررہے تھے۔
میرواعظ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ متحدہ مجلس علماء نے جے پی سی کو ایک خط لکھا تھا اور انہیں کہا تھا کہ کشمیر کے علماء وقف بل کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہی ملاقات کی درخواست کی تھی جبکہ جے پی سی کی طرف سے انہیں دعوت نہیں دی گئی تھی۔ جب 26 جنوری کو جب ملک میں یوم جمہوریہ منایا جارہا تھا، اس روز میرواعظ نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی سے ملاقات کی۔ ان کے ساتھ دارالعلوم رحیمیہ کے مہتمم مولانا رحمت اللہ قاسمی بھی تھے۔ میٹنگ کے دوران، رہنماؤں نے مجوزہ وقف ترمیمی بل کے اثرات اور وقف املاک کی خود مختاری اور انتظام پر اس کے ممکنہ اثرات سے متعلق خدشات پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے وقف اداروں اور مسلم کمیونٹی کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ میرواعظ نے مدنی کو جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ میرواعظ عمر فاروق دیگر ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے تاکہ انہیں مجوزہ بل سے متعلق مسلم کمیونٹی کے خدشات اور جموں و کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔ میرواعظ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وقف بل کے پس منظر میں وہ ابھی مزید لوگوں کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ انکے مطابق اس وقت وقف کا مسئلہ اہم ہے، اس لیے انہوں نے مذہبی لیڈر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ سیاسی موضوع پر کوئی ملاقات نہیں کریں گے اور وضاحت کی کہ انکا سیاسی مؤقف بالکل واضح ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وقف بل کے بارے میں جے پی سی کے ساتھ نئی دہلی میں ہونے والی میٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ میرواعظ فاروق مودی کی قیادت والی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے لچکدار رویہ اختیار کرسکتے ہیں حالانکہ مؤخر الذکر نے بات چیت کی طرف کبھی جھکاؤ نہیں دکھایا بلکہ علیحدگی پسند رہنماؤں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ "آہنی ہاتھوں" سے نمٹنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
متعدد سرکردہ حریت اور علیحدگی پسند رہنما شدت پسندی کی مالی معاونت اور ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہیں، میر واعظ خود آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے بعد چار سال تک گھر میں نظر بند تھے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار اور کشمیر یونیورسٹی میں سیاسیات کے سابق پروفیسر نور احمد بابا نے کہا کہ میر واعظ کی دہلی جانے والی پرواز کو وقف بل میں ترمیم پر ان کی تشویش سے زیادہ معنی پہنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نور احمد بابا کے مطابق میرواعظ عمر فاروق ایک مذہبی رہنما ہیں اور وقف ترمیمی بل کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انہوں نے ایک پہل کی ہے کیونکہ انہیں ادراک ہے کہ اس بل میں ہونے والی مجوزہ ترامیم کا جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا۔ ستمبر 2024 میں گھر کی نظر بندی سے رہائی کے بعد سے، میرواعظ کی سری نگر کے پرانے شہر میں واقع جامع مسجد میں، جہاں وہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں، کی تقریریں علیحدگی پسندی کے بارے میں کم اور سماجی، معاشی اور مذہبی مسائل کے بارے میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ رہائی کے بعد میرواعظ کا سماجی اور مذہبی کردار اس وقت زیادہ قابل توجہ تھا جب انہوں نے اسمبلی انتخابات کے بارے میں بات کی اور اشارہ دیا کہ لوگوں کو اس کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے مقامی حکومت کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ دیں۔ انکے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں سری نگر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی رہائش گاہ کے باہر ریزرویشن کے خلاف ایک مطاہرے کا اہتمام کیا گیا جس میں میرواعظ کی جماعت سے وابستہ ایک وفد نے بھی شرکت کی اور مظاہرین سے ملاقات کی۔ اس مظاہرے میں سرینگر کے منتخب رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ بھی شریک ہوئے تھے جو کشمیر کی موجودہ صورتحال سے متعلق اپنے انوکھے خیالات کیلئے جانے جاتے ہیں۔
علیحدگی پسند سیاست میں اعتدال پسند چہرے کے طور پر جانے جانے والے میر واعظ کئی دہائیوں سے حریت کانفرنس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ان کے معتدل انداز کی بنیاد پر وہ ماضی میں دو سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ اور سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کرچکے ہیں۔ میرواعظ اس سیاسی عمل کا حصہ تھے جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خیر سگالی کی ایک فضا قائم ہوئی تھی اور تقسیم ہند کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے دو حصوں کے درمیان، جو فی الوقت بھارت اور پاکستان کے زیر انتطام ہیں، سفری اور تجارتی روابط استوار کئے تھے۔ یہ عمل ممبئی حملوں کے بعد زوال کا شکار ہوا اور جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد مکمل طور زمین برد ہوگیا۔ نئی دہلی میں 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے خلاف انتہائی سخت مؤقف اختیار کیا گیا جس مین کسی قسم کی لچک نہیں دکھائی جارہی ہے۔