ETV Bharat / state

خواجہ سراؤں کے لیے اب یہ نیا مزاق کیسا؟

author img

By

Published : May 30, 2020, 5:07 PM IST

خواجہ سرا ببلو کا کہنا ہے کہ ماہانہ وظیفہ دینے کی بات کہی جارہی ہے یہ بھی مزاق ہی لگ رہا ہے کیونکہ موجودہ دور میں ایک ہزار روپیے مہینے بھر کے خرچ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

خواجہ سراؤں کے لیے اب یہ نیا مزاق کیسا
خواجہ سراؤں کے لیے اب یہ نیا مزاق کیسا

جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کو پنشن اسکیم کے دائرے میں لایا گیا ہے، جس کے تحت اب خواجہ سرا بھی بزرگ اشخاص، بیواؤں، یتیموں اور سماج کے دیگر جسمانی اور مالی لحاظ کمزور طبقوں کی طرح ہی ماہانہ ایک ہزار روپے کا وظیفہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

خواجہ سراؤں کے لیے اب یہ نیا مزاق کیسا

خواجہ سراؤں کو سماجی تحفظ اسکیم یعنی آئی ایس ایس کے زمرے میں لایا گیا ہے۔ جس کے تحت اب انہیں ماہانہ مالی امداد فراہم کی جائے گی۔

سرکار کے اس فیصلے کے تناظر میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سونزل نے اسے ایک چھوٹی سی شروعات سے تعبیر کرتے ہوئے اگرچہ فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے کہا کہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں ایک ہزار روپے میں اس کمزور طبقے کی زندگی کسی طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔

سماجی تحفظ اسکیم کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے خواجہ سراؤں کو بھی اس طرح کے لوازمات سے گزرنا ہوگا جو باقی زمروں کے لیے وضع کئے گئے ہیں۔

خواجہ سراؤں کی یہ ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ، اونچے قہقہے ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت چھپاتی ہے۔

خواجہ سرا ببلو کا کہنا ہے اب تک کسی بھی حکومت نے ان کےحقوق پر کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک محدود رہی۔ اب جو ماہانہ وظیفہ دینے کی بات کی کہی جارہی ہے یہ بھی مزاق کی طرح ہی لگ رہا ہے کیونکہ موجودہ دور میں ایک ہزار روپیہ مہینے بھر کے خرچے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے ۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اگرچہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت خواخہ سراؤں کو تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا ہے مگر جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں ابھی تک وہ شناخت نہیں ملی ہے۔

اعجاز احمد بند کہتے ہیں کہ خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لیےزرا مشکل ہے۔

خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے ہی اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں ۔لیکن دور جدید کے چلن سےاب ان کا یہ کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجہ کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل لائی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی سماج میں بہتر ڈھنگ سے گزار سکے۔

جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کو پنشن اسکیم کے دائرے میں لایا گیا ہے، جس کے تحت اب خواجہ سرا بھی بزرگ اشخاص، بیواؤں، یتیموں اور سماج کے دیگر جسمانی اور مالی لحاظ کمزور طبقوں کی طرح ہی ماہانہ ایک ہزار روپے کا وظیفہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

خواجہ سراؤں کے لیے اب یہ نیا مزاق کیسا

خواجہ سراؤں کو سماجی تحفظ اسکیم یعنی آئی ایس ایس کے زمرے میں لایا گیا ہے۔ جس کے تحت اب انہیں ماہانہ مالی امداد فراہم کی جائے گی۔

سرکار کے اس فیصلے کے تناظر میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سونزل نے اسے ایک چھوٹی سی شروعات سے تعبیر کرتے ہوئے اگرچہ فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے کہا کہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں ایک ہزار روپے میں اس کمزور طبقے کی زندگی کسی طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔

سماجی تحفظ اسکیم کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے خواجہ سراؤں کو بھی اس طرح کے لوازمات سے گزرنا ہوگا جو باقی زمروں کے لیے وضع کئے گئے ہیں۔

خواجہ سراؤں کی یہ ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ، اونچے قہقہے ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت چھپاتی ہے۔

خواجہ سرا ببلو کا کہنا ہے اب تک کسی بھی حکومت نے ان کےحقوق پر کام نہیں کیا اور اگر کسی وقت تحفظات کے حوالے سے کوئی بات کہی بھی گئی تاہم وہ کاغذات اور اعلانات تک محدود رہی۔ اب جو ماہانہ وظیفہ دینے کی بات کی کہی جارہی ہے یہ بھی مزاق کی طرح ہی لگ رہا ہے کیونکہ موجودہ دور میں ایک ہزار روپیہ مہینے بھر کے خرچے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے ۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اگرچہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت خواخہ سراؤں کو تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا ہے مگر جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں ابھی تک وہ شناخت نہیں ملی ہے۔

اعجاز احمد بند کہتے ہیں کہ خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لیےزرا مشکل ہے۔

خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے ہی اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں ۔لیکن دور جدید کے چلن سےاب ان کا یہ کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجہ کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل لائی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی سماج میں بہتر ڈھنگ سے گزار سکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.