شجاعت بخاری کے رفقاء انہیں شدت سے یاد کرتے ہیں
نامور صحافی سید شجاعت بخاری کو دو سال پہلے عید الفطر سے ایک روز قبل بے دردی سے قتل کیا گیا۔ سرینگر کے پریس کالونی کے باہر نا معلوم بندوق برداروں نے فائرنگ کرکے انہیں محافظین سمیت ابدی نیند سلادیا۔
شجاعت کے رفقاء انہیں شدت سے یاد کرتے ہیں
شجاعت بخاری انگریزی روزنامہ 'رائزنگ کشمیر، اردو روزنامہ بلند کشمیر اور کشمیری زبان میں شائع ہونے والے اخبار سنگرمال کے بانی اور مدیر اعلیٰ تھے۔
صحافتی میدان میں ایک نامی گرامی شخصیت ہونے کے علاوہ وہ کشمیری زبان و ادب کے فروغ پر کام کرنے والی جموں و کشمیر کی سب سے بڑی ادبی انجمن ادبی مرکز کمراز کے اہم رکن میں بھی شامل تھے۔
مرحوم شجاعت بخاری کے قتل کو دو سال گزرچکے ہیں۔ پولیس نے اگرچہ قتل کا الزام ان کے قتل کے کچھ ہی مدت بعد عسکریت پسندوں پر عائد کرکے اس کیس کو تقریباً بند کردیا تاہم سینئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ ان کے قتل کی تحقیقات اس ڈھنگ سے نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہئے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ شجاعت بخاری کے قتل کے معاملے میں سوالات و شبہات اب بھی مسلسل ذہنوں میں موجود ہیں۔
شجاعت بخاری کو ان کے عزیز و اقارب، دوست و رفقاء اور ان کے ہم پیشہ انہیں آج بھی شدت سے یاد کرتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ نہ وہ شجاعت بخاری کو بھولے ہیں اور نہ ہی ان پر کئے گئے بہیمانہ قتل کے سانحے کو کبھی فراموش کر پائیں گے۔
صحافی شجاعت بخاری کو یاد کرتے ہوئے سینئر صحافی ظفر چودھری نے اپنے فیس بک وال پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں انہوں نے شجاعت کی صحافتی خدمات کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شجاعت ان کے قریبی دوستوں میں تھے اور ان کے قتل سے اس شعبے میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پر کرنا کافی دشوار ہے- شجاعت کی ہلاکت کے سلسلے میں ہوئی تحقیقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ شجاعت بخاری کے قتل کے معاملے کی تحقیقات کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے سپرد کیا جانا چاہیے تاکہ ان کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے۔
شجاعت بخاری کے ساتھ ان کے ہی ادارے میں برسوں سے کام کرنے والے سینئر صحافی راشد مقبول نے ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا " شجاعت بخاری کی یاد کے ساتھ ساتھ وہ سوالات پھر سے ابھر رہے ہیں جو ان کے اس بہیمانہ قتل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جن کی ابھی تشفی بخش تحقیقات نہیں ہوئی ہے اور وہ سوالات اپنے جوابات کے لئے تشنہ ہیں اور اس سلسلے میں بہت سارے گوشے ابھی تک اندھیرے میں ہیں - " انہوں نے کہا کہ آج جب ہم شجاعت بخاری کے اس دلدوز واقعے کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے قتل کے دو سال بعد بھی کشمیر میں صحافیوں کے لئے صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے بلکہ مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔
معروف صحافی اور شجاعت بخاری کے قریبی ساتھی جلیل راٹھور نے ان کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 'شجاعت بخاری کے ساتھ ان کا تعلق کافی گہرا تھا اور ان کے قتل نے ان کے ساتھ ساتھ پوری صحافی برادری کو ہلا کر رکھ دیا'۔ انہوں نے بتایا کہ شجاعت بخاری کو خاموش کرنے سے ان کے قاتلوں کو شاید لگا تھا کہ انہوں نے اسے ختم کردیا لیکن شجاعت بخاری ایک ایسی آواز اور فکر ہیں جو ان کے قتل کے بعد بھی ہمیشہ کے لئے زندہ رہیگی- انہوں نے مزید بتایا کہ کشمیر کی صحافی برادری کا آج بھی یہی مطالبہ ہے کہ شجاعت کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کی ہلاکت پر سے پردہ اٹھایا جائے۔
رائزنگ کشمیر میں کام کرنے والے جواں سال صحافی اور شجاعت بخاری کے ہاتھوں عملی میدان میں صحافت کی تربیت حاصل کرنے والے دانش بن نبی نے ای ٹی وی کو بتایا کہ آج شجاعت بخاری کے قتل کو دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کے بچھڑنے کا دکھ آج بھی ترو تازہ ہے- انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بیشتر نوجوان صحافیوں نے ان سے کافی کچھ سیکھا ہے اور ان کو قتل کئے جانے سے صحافت کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید ہی کبھی پر ہو۔