تیرہ جولائی جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ آج ہی کے دن سنہ 1931 میں سرینگر کی سینٹرل جیل میں شخصی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج نے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 22 نہتے عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ ان ہی ہلاکتوں کی یاد میں ہر سال کشمیر میں یوم شہداء کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ اور اس دن کے حوالے سے مزار شہداء پر گل باری کی تقریب حکومتی سطح پر منائی جاتی رہی ہے۔ تاہم 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد مزارِ شہداء میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یوم شہداء کے موقع پر سرینگر میں بندشیں اور قدغنیں گزشتہ برس کی طرح امسال بھی یوم شہداء کے موقع پر پراسرار خاموشی چھائی رہی۔ شہر سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزارِ شہداء میں 13 جولائی 1931 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا جاسکا۔ شہر خاص جانے والے تمام راستوں کو بریکیڈز اور خاردار تاروں سے بند کیا گیا ہے۔ جب کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے پولیس کے علاوہ فورسز کی بھاری تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔
یوم شہداء کے موقع پر سرینگر میں بندشیں اور قدغنیں یوم شہداء کے موقع پر سرینگر میں بندشیں اور قدغنیں اگرچہ گزشتہ روز وادی کی سیاسی اور علاحدگی پسند جماعتوں نے اپنے بیانات کے ذریعے ان شہداء کو خراج تحسین پیش کیا تاہم آج مزارِ شہداء پر خاموشی ہی چھائی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کی تاریخ میں یہ ایسا واحد واقعہ ہے جس پر مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں اور علاحدگی پسندوں کا اتفاق ہے۔ لیکن بی جے پی 1931 میں پیش آئے واقعہ سے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر
5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کئے جانے، جموں و کشمیر اور لداخ کو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کیے جانے کے بعد مزار شہداء واقع نقشبند صاحب میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔