ETV Bharat / state

اولمپک ڈے: کشمیر کے پہلے اولمپین سے خاص ملاقات

سنہ 1988 میں سرینگر کے رہنے والے گل مصطفی دیو نے اولمپک میں شرکت کر کے نہ صرف وادی اور ملک کا نام روشن کیا بلکہ وادی کے کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال بھی بنے۔

Olympic Day: Meet Kashmir's first Olympian Gul Mustafa Dev
اولمپک ڈے: کشمیر کے پہلے اولمپین سے ملیے
author img

By

Published : Jun 23, 2020, 5:00 PM IST

آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کے بیچ 'اولمپک ڈے' منایا جا رہا ہے۔ جہاں اس موقع پر کھلاڑیوں کو کئی اعزازات سے نوازا جاتا تھا اور متعدد تقریبات بھی منعقد کی جاتی تھیں۔ تاہم آج دنیا بھر کے کھلاڑی عوام میں جسمانی تندرستی کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے 24 گھنٹے براہ راست ہونگے۔

سنہ 1894 میں شروع ہوئی اولمپک کھیلوں کی یاد میں سنہ 1948 سے اس دن کو منانے کی شروعات کی گئی۔ وادی کشمیر کی بات کریں تو یہاں کھلاڑیوں میں قابلیت کی کمی نہیں ہے تاہم اولمپک میں ابھی تک اپنا لوہا منوا نہیں پائے۔

سنہ 1988 میں سرینگر کے رہنے والے گل مصطفی دیو نے اولمپک میں شرکت کر کے نہ صرف وادی اور ملک کا نام روشن کیا بلکہ وادی کے کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال بھی بنے۔

جموں و کشمیر کے گرمائی دار الحکومت سری نگر کے رہنے والے گل دیو کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ جموں و کشمیر کا پہلا اور واحد اولمپین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اولمپک ڈے: کشمیر کے پہلے اولمپین سے ملیے
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے اپنے اولمپک کے سفر، وادی میں کھیل اور کھلاڑیوں کے مستقبل اور ان کے سامنے آنے والی مشکلات کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کیے۔
اپنے سفر کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سنہ 1988 میں بھارت کی طرف سے کنیڈا میں منعقد کیے گئے سرمائی اولمپک کھیلوں میں شرکت کرنا ان کے لیے ایک خواب سے کم نہیں تھا۔ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن اور ونٹر گیمز فیڈریشن آف انڈیا کی جانب سے لی گئی ٹرائلز میں وہ اول آئے تھے جس کے بعد انہیں اولمپکس کے لیے چنا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ بھارت کھیلوں میں شرکت کر رہا تھا۔
میں نے 68 پائیدان حاصل کیا تھا۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "میں نے اولمپکس کے لئے کافی محنت کی تھی اور جب میرا نام چنا گیا تو وہ میری زندگی کا سب سے اہم اور یادگار پل تھا۔"قابل ذکر ہے کہ سن 2008 میں انڈین اولمپک اسوسئشن اور ونٹر گیمز فیڈریشن آف انڈیا نے گل مصطفی دیو کو سرمائی کھیلوں کی مشعل کو دہلی سے گل مرگ لانے کی ذمہ داری دی تھی۔دیو کا کہنا ہے کہ "مشعل کو گل مرگ لانا ان کی زندگی میں ایک اہم جگہ رکھتا ہے۔ انہیں یاد ہے کہ کیسے دہلی سے شملہ پھر وہاں سے جموں اور آخر میں گلمرگ مشعل لائی گئی۔"سن 2011 میں انہیں اولمپین اوارڈ نوازا گیا اس سے قبل شیر کشمیر میڈل بھی دیا گیا۔ ان کی شاندار کارکردگی کے لیے انہیں جموں کشمیر کے سابق گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ "انہیں وہ سب کچھ ملا جس کی انہیں خواہش کی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ انہیں محنت اور لگن سے حاصل ہوا۔
آج کا دور مختلف ہے۔ ہمارے وقت اتنی سہولتیں نہیں تھی۔ گلمرگ میں کھلاڑیوں کے لیے لفٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم اپنا راستہ خود بناتے تھے جس کی وجہ سے ٹانگوں میں مضبوطی آتی تھی اور کھیل بھی بہتر ہوتا تھا۔"آج کل کے کھلاڑیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ "کافی کچھ بدل گیا ہے۔ بنیادی سہولتیں بہتر ہوگئی ہیں۔ لیکن مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وادی کے کھلاڑی اگر اولمپک کے لیے نہیں چنے جا رہے ہیں اس میں صرف ان کی غلطی نہیں ہے۔ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کا تجربہ نہیں ہے۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ اس تعلق سے کچھ اقدامات اٹھائیں۔ ایک کھلاڑی خود ہی بیرون ملک جا کر مشقت نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اسکینگ کے لیے وادی میں جو سلوپ (دھلان) موجود ہے وہ بھی تسلیم شدہ نہیں ہے۔ جس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔"انہوں نے کھیلاڑیوں کو آگاہ کیا کہ "صرف سرٹیفکیٹ کے لئے نہیں کھیلنا نہیں چاہیے۔ آپ اسپورٹس کوٹا میں انجینرنگ یا ڈاکٹر کی پڑھائی کرو مگر جو کھیل کھیلو وہ محنت اور لگن کے ساتھ کھیلو۔ ایکسرسائز (ورزش) کرنے کے لیے اسٹیڈیم یا گراؤنڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے گھر میں بھی آپ ورزش کر سکتے ہو۔ وادی میں نامساعد حالات کوئی بہانہ نہیں ہونا چاہیے۔ کھلاڑی کو ہر حال میں کھیلنا ہے اور اپنی کھیل کو بہتر بنانا ہے۔"واضح رہے گل مصطفی دیو وادی کے نامور فٹ بال کھلاڑی حبیب اللہ دیو کے بیٹے ہے جو اس وقت نا صرف خود اسکینگ کرتے ہے بلکہ 12000 کھلاڑیوں کو سن 1993 سے تربیت فراہم کر رہے ہے۔ ان کھلاڑیوں میں سے کافی نے جموں کشمیر کا نام قومی اور بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ہے۔

آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کے بیچ 'اولمپک ڈے' منایا جا رہا ہے۔ جہاں اس موقع پر کھلاڑیوں کو کئی اعزازات سے نوازا جاتا تھا اور متعدد تقریبات بھی منعقد کی جاتی تھیں۔ تاہم آج دنیا بھر کے کھلاڑی عوام میں جسمانی تندرستی کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے 24 گھنٹے براہ راست ہونگے۔

سنہ 1894 میں شروع ہوئی اولمپک کھیلوں کی یاد میں سنہ 1948 سے اس دن کو منانے کی شروعات کی گئی۔ وادی کشمیر کی بات کریں تو یہاں کھلاڑیوں میں قابلیت کی کمی نہیں ہے تاہم اولمپک میں ابھی تک اپنا لوہا منوا نہیں پائے۔

سنہ 1988 میں سرینگر کے رہنے والے گل مصطفی دیو نے اولمپک میں شرکت کر کے نہ صرف وادی اور ملک کا نام روشن کیا بلکہ وادی کے کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال بھی بنے۔

جموں و کشمیر کے گرمائی دار الحکومت سری نگر کے رہنے والے گل دیو کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ جموں و کشمیر کا پہلا اور واحد اولمپین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اولمپک ڈے: کشمیر کے پہلے اولمپین سے ملیے
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے اپنے اولمپک کے سفر، وادی میں کھیل اور کھلاڑیوں کے مستقبل اور ان کے سامنے آنے والی مشکلات کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کیے۔
اپنے سفر کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سنہ 1988 میں بھارت کی طرف سے کنیڈا میں منعقد کیے گئے سرمائی اولمپک کھیلوں میں شرکت کرنا ان کے لیے ایک خواب سے کم نہیں تھا۔ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن اور ونٹر گیمز فیڈریشن آف انڈیا کی جانب سے لی گئی ٹرائلز میں وہ اول آئے تھے جس کے بعد انہیں اولمپکس کے لیے چنا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ بھارت کھیلوں میں شرکت کر رہا تھا۔
میں نے 68 پائیدان حاصل کیا تھا۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "میں نے اولمپکس کے لئے کافی محنت کی تھی اور جب میرا نام چنا گیا تو وہ میری زندگی کا سب سے اہم اور یادگار پل تھا۔"قابل ذکر ہے کہ سن 2008 میں انڈین اولمپک اسوسئشن اور ونٹر گیمز فیڈریشن آف انڈیا نے گل مصطفی دیو کو سرمائی کھیلوں کی مشعل کو دہلی سے گل مرگ لانے کی ذمہ داری دی تھی۔دیو کا کہنا ہے کہ "مشعل کو گل مرگ لانا ان کی زندگی میں ایک اہم جگہ رکھتا ہے۔ انہیں یاد ہے کہ کیسے دہلی سے شملہ پھر وہاں سے جموں اور آخر میں گلمرگ مشعل لائی گئی۔"سن 2011 میں انہیں اولمپین اوارڈ نوازا گیا اس سے قبل شیر کشمیر میڈل بھی دیا گیا۔ ان کی شاندار کارکردگی کے لیے انہیں جموں کشمیر کے سابق گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ "انہیں وہ سب کچھ ملا جس کی انہیں خواہش کی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ انہیں محنت اور لگن سے حاصل ہوا۔
آج کا دور مختلف ہے۔ ہمارے وقت اتنی سہولتیں نہیں تھی۔ گلمرگ میں کھلاڑیوں کے لیے لفٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم اپنا راستہ خود بناتے تھے جس کی وجہ سے ٹانگوں میں مضبوطی آتی تھی اور کھیل بھی بہتر ہوتا تھا۔"آج کل کے کھلاڑیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ "کافی کچھ بدل گیا ہے۔ بنیادی سہولتیں بہتر ہوگئی ہیں۔ لیکن مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وادی کے کھلاڑی اگر اولمپک کے لیے نہیں چنے جا رہے ہیں اس میں صرف ان کی غلطی نہیں ہے۔ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کا تجربہ نہیں ہے۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ اس تعلق سے کچھ اقدامات اٹھائیں۔ ایک کھلاڑی خود ہی بیرون ملک جا کر مشقت نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اسکینگ کے لیے وادی میں جو سلوپ (دھلان) موجود ہے وہ بھی تسلیم شدہ نہیں ہے۔ جس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔"انہوں نے کھیلاڑیوں کو آگاہ کیا کہ "صرف سرٹیفکیٹ کے لئے نہیں کھیلنا نہیں چاہیے۔ آپ اسپورٹس کوٹا میں انجینرنگ یا ڈاکٹر کی پڑھائی کرو مگر جو کھیل کھیلو وہ محنت اور لگن کے ساتھ کھیلو۔ ایکسرسائز (ورزش) کرنے کے لیے اسٹیڈیم یا گراؤنڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے گھر میں بھی آپ ورزش کر سکتے ہو۔ وادی میں نامساعد حالات کوئی بہانہ نہیں ہونا چاہیے۔ کھلاڑی کو ہر حال میں کھیلنا ہے اور اپنی کھیل کو بہتر بنانا ہے۔"واضح رہے گل مصطفی دیو وادی کے نامور فٹ بال کھلاڑی حبیب اللہ دیو کے بیٹے ہے جو اس وقت نا صرف خود اسکینگ کرتے ہے بلکہ 12000 کھلاڑیوں کو سن 1993 سے تربیت فراہم کر رہے ہے۔ ان کھلاڑیوں میں سے کافی نے جموں کشمیر کا نام قومی اور بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ہے۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.