سرینگر (جموں و کشمیر): مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اگرچہ رواں برس عسکریت پسندی سے منسلک واقعات اور ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے وہیں دیگر جرائم میں کافی اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے ای ٹی وی بھارت کو نام مخفی رکھنے کی شرف پر بتایا: ’’جہاں گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس کے پہلے تین ماہ میں عسکریت پسندی سے متعلق ہلاکتوں میں 81.52 فیصد کمی آئی ہے وہیں سماجی جرائم اور ذاتی دشمنی، انتقام گیری یہ جذبات پر قابو نہ رہنے کے پیش نظر ہوئی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’’حال ہی میں ضلع بڈگام سے دل دہلانے والی خبر سامنے آئی، جس میں ایک لڑکی کو ہلاک کرنے کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔ اس واقعہ کے پیش نظر کئی روز تک احتجاج بھی جاری رہا اور پولیس نے مبینہ طور قاتل کو گرفتار کرنے میں جلد ہی کامیابی بھی حاصل کر لی اور اس ضمن میں مزید تحقیقات جاری ہے۔
’’اسی طرح سرینگر کے مضافاتی علاقہ نوگام میں ایک نوجوان کی لاش بر آمد کی گئی، بعد میں اس کے قاتلوں کو پکڑنے میں بھی پولیس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی طرح شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں ایک فرزند اپنی والدہ قتل کر دیا وہیں کپوارہ میں ایک والد نے اپنی ہی کمسن بچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح کئی ایسے دلدوز معاملے سامنے آئے ہیں۔ تاہم پولیس ہمیشہ کی طرح معاملے کے تہہ تک جانے میں کامیاب ہوئی اور مجرموں کو بے نقاب کیا۔‘‘ پولیس افسر نے مزید کہا کہ سبھی معاملات میں مزید تحقیقات جاری ہے۔
سرینگر میں ہی حالی دنوں رمضان المبارک کے متبرک ایاک میں دو قحبہ خانوں کا پردہ فاش ہوا، جہاں افراد بشمول سرغنہ گرفتار کیے گئے۔ پولیس افسران نے اس ضمن میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا: ’’ذرائع کی نشاندہی پر جسم فروشی کا پہلے اڈے کا پتہ لگایا گیا اور مزید تحقیقات کے دوران ایک اور قحبہ خانہ کا پتہ لگا کر وہاں بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی۔ ہمیں یقین ہے کہ اور بھی کئی قحبہ خانے فعال ہیں، ہماری تحقیقات جاری ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Seminar on Social Evils : جرائم، منشیات کے بڑھتے رجحان پر بیداری پروگرام
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح عوام سماجی بدعات ختم کرنے اور جرائم کو روکنے میں پولیس کا دور کرنے میں پولیس کا ساتھ دے رہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ پولیس افسر نے کہا: ’’ہمیں اُمید ہے کہ جلد ہی عسکریت پسندی کے ساتھ ساتھ ان جرائم پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن مذہبی رہنماؤں کو بھی اس حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنی چاہیے۔‘‘