جموں و کشمیر میں روایتی صنعتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہیں صنعتوں میں شمار ہوتا ہے ریشم سے بننے والا پوشاک۔
سنہ 2014 میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد سرینگر کے راج باغ علاقے میں واقع سلک فیکٹری کی مشینیں خراب ہو چکی تھی۔ جس کی وجہ سے پروڈیکشن میں بھی کافی نقصان ہو رہا تھا۔ تاہم اب محکمہ انڈسٹریز نے جدید مشینوں کو یہاں نصب کیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ پیداوار میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
محکمہ انڈسٹریز اینڈ کامرس کے پرنسپل سیکریٹری رنجن پرکاش ٹھاکر کا کہنا ہے کہ 'یہاں دستکاروں کے ذریعے بنائے گئے سامان کی صحیح طریقے سے مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی ریشم کی مقدار اگرچہ کم ہوتی ہے لیکن معیار اعلی درجے کا ہوتا ہے۔ ابھی تک ہم ریشم کا دھاگہ ہی یہاں سے برآمد کرتے تھے جس سے کافی نقصان ہو رہا تھا۔ کاریگروں کو مناسب قیمت بھی نہیں مل رہی تھی۔ اب ہم دھاگا نہیں بلکہ ریشم سے بنے ہوئے پوشاک برآمد کریں گے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کشمیری ریشم سے بنی ہوئی پوشاک مناسب دام اور اعلی معیار کی ہوتی ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کشمیری ریشم کتنا بہتر ہے۔ یہی ہماری کوشش بھی رہے گی اور اس سے یہاں کے مقامی کاریگروں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا'۔
سلک فیکٹری کے مینیجر ضمیر سید الہی کا کہنا ہے کہ 'ہماری اس فیکٹری میں موجودہ وقت میں تقریباً ریشم کی چودہ قسمیں تیار کی جاتی ہیں۔ تباہ کن سیلاب، جو سنہ 2014 میں آیا، اس نے ہماری کافی مشینیں تباہ کر دی۔ جس سے ہم یہاں ریشم کی تمام قسمیں پیدا نہیں کر پا رہے تھے۔ اب ہمارے پاس گیارہ آٹومیٹک مشینیں آئی ہیں۔ ان مشینوں سے نہ صرف ہمارے معیار میں اضافہ ہوگا بلکہ مقدار بھی کافی بڑھے گی۔ اور کاریگروں کو بھی زیادہ آمدنی ہوگی'۔
یہ بھی پڑھیے
جموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں نائٹ کرفیو کا اعلان
فیکٹری میں کام کر رہے فاروق احمد میر کو امید ہے کہ نئی مشینوں کے نصب کیے جانے سے ان کے کام میں اضافہ ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں زیادہ تر مشینری خستہ حال ہو چکی تھی۔ اب نئی مشینیں لائی گئی ہیں۔ امید ہے کہ نئی مشینوں سے وہ بہتر کام کر پائیں گے۔
گذشتہ برس عالمی بینک کی جانب سے سلک فیکٹری کی تجدید و مرمت کے لیے ساڑھے باراں کروڑ روپے دیے گئے، جس کے بعد فیکٹری میں نئی مشینیں نصب کی گئی ہیں، اب فیکٹری سے منسلق تئیس ہزار کنبے یہ امید کر رہے ہیں کہ پروڈیکشن کے ساتھ ساتھ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔