وادی کشمیر میں لاک ڈوان کے دوران اگرچہ پرائمری تا سکینڈری سطح تک کے اسکولی بچوں کا گھروں میں پڑھائی کا عمل کسی تک حد جاری ہے۔ لیکن مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف عمل طلبا و طالبات کو کئی دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
'کشمیر کی موثر آواز بننا چاہتی ہوں'
سخت ترین بندشوں اور پابندیوں کے بیچ گزشتہ برس 7ماہ تک اسکولز اور کالجز بند رہنے کے بعد رواں برس مارچ کے مہینے میں تعلیمی ادارے پھر سے کھولے گئے ۔ طلبا نے ابھی اسکولوں میں پڑھائی کے چند ہفتے بھی نہیں گزارے تھے کہ عالمی وبا کورونا وائرس نے جموں و کشمیر میں دستک دی، جس وجہ سے کالج اور اسکول پھر سے بند کر دئیے گئے، اب بچوں کو یہ یاد بھی نہیں کہ آخری بار وہ کب اسکول گئے ہیں۔
آج کل کے اس جدید دور میں انٹرنیٹ تعلیم کا اہم زریعہ مانا جاتا ہے لیکن وادی کشمیر میں یہ سہولت بھی مکمل طور میسر نہیں ہے۔ تیز رفتار 4 جی انٹرنیٹ سروس ابھی بھی یہاں بحال نہیں کی گئی ہے۔
نیٹ کی تیاری میں مصروف فلک کہتی ہیں کہ 2 جی انٹرنیٹ سروس سے پڑھائی کے اعتبار سے انہیں کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوپا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول سے دوری اور پڑھائی کے دوران مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے دوران مناسب سہولیات دستیاب نہ ہونے کے باعث اب ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
'کشمیر میں صحافت پر بندشیں ہیں'
ملک کی باقی ریاستوں اور یونین ٹرٹیز میں اگرچہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں رواں برس کے مارچ مہینے سے تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں۔ لیکن کشمیر وادی کے طلبا گزشتہ ایک برس سے لاک ڈاون سے گزر رہے ہیں۔ جس سے یہ بخوبی یہ انداز لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طلبا کن حالات میں اور کس طرح مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرتے ہوں گے۔