نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر سلمان ساگر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیان دیر سے آیا تاہم درست ہے۔ ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی جموں و کشمیر کے عوام کے لیے سردرد بنی ہوئی ہے۔ چاہے پاکستان کے رہنما یا پھر بھارت کے رہنما امن کے حوالے سے بیان دیں، دونوں صورتوں میں فائدہ کشمیر کو ہی ہوگا'۔
سلمان ساگر نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا 'اس بیان پر لیڈران قائم رہیں گے اور پھر یہ خطے کی فلاح و بہبودی کا باعث بنے گا'۔
انہوں نے کہا کہ 'دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے وقت صورت حال مختلف تھی۔ تب سے اب تک حالات میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اچھے کام ہوئے ہیں۔ ہم ان سب کا استعمال کرتے ہیں'۔
بی جے پی کے ترجمان منظور بٹ جنرل باجوہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں ممالک کے لیے یہ بہت اچھا قدم ہے۔ امن اور دوستانہ ماحول کے باعث ہی کسی بھی ملک کی ترقی ممکن ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کافی عرصے سے کشیدگی جاری تھی جس وجہ سے دونوں طرف نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کی صورتحال سے بھی آپ واقف ہیں۔ جہاں اس کو اس وقت ہونا چاہیے تھا وہ وہاں ہے نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے انسانیت کا ماحول بنایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا اس بات کو مانتی ہے کہ بھارت ایسا ملک ہے جہاں بھائی چارہ کو ترجیح ملتی ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ امن و امان کے لیے بات کریں تا کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو اور معصوم جانیں ضائع نہ ہو'۔
تجزیہ نگار شوکت ساحل کا ماننا ہے کہ اس پیشرفت کا اندازہ پہلے سے ہی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'حال میں جب جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ اندازہ ہوگیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتے کو بہتر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جارہا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے جاری کیے گئے بیان پر دیکھا گیا کہ سرحدی علاقوں پر رہنے والے افراد کتنے خوش ہوئی تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دونوں ممالک جوہری طاقت ہیں اور دشمنی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کو بربادی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں ممالک کی جانب سے سنجیدہ بیان آ رہے ہیں جو ایک اچھی بات ہے۔
انہوں نے کہا سن 2019 میں پانچ اگست کو لیے گئے فیصلے اور اس کے بعد مرکز کی جانب سے جموں و کشمیر کے لیے جاری کیے گئے قوانین کو بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
شوکت ساحل نے کہا کہ جموں کشمیر کی اندرونی سیاست مختلف ہے اور عالمی سیاست مختلف ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ہے اس کے اثرات یہاں بھی نظر آتے ہیں'۔