سرینگر: اگرچہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے جموں و کشمیر انتظامیہ، مرکزی حکومت اور پولیس کی جانب سے کئی بیانات دیے گئے ہیں۔ بیشتر بیانات میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وادی میں عسکریت پسندی ختم ہونے کے کہگار پر ہے اور ہر گزشتہ برس کے ساتھ اس میں کمی نظر آرہی ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کیے جانے کے وقت بھی دعوی کیا گیا تھا کہ "اس اقدام سے کشمیر میں عسکریت پسندی کی قمر ٹوٹ جائے گی۔" وہیں سرکاری اعداد و شمار سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران جموں و کشمیر میں کُل ہلاکتوں میں معمولی کمی آئی ہے تاہم امسال انتظامیہ اور پولیس کے لیے ٹارگٹ کلنگ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔Militancy Incident Post Abrogation Of Article 370
وہیں اگر سال 2022 کی بات کریں تو نومبر مہینے کی آخر تک خطے میں کل 147 عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 30 عام شہری، 30 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 186 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ وہیں سال کا سب سے خونی ماہ جون رہا، جون میں کل ہلاکتیں 40 درج کی گی ہیں، وہیں اسی مہینے میں تین عام شہری، دو سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 35 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔جولائی میں سب سے کم ہلاکتیں 8 درج کی گی ہے، اس دوران پانچ عسکریت پسند اور تین سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔Militants Killed In 2022
اسی طرح 9 مارچ کو ایک سرپنچ سمیر احمد بٹ کو مسلح بندوق برداروں نے سرینگر کے مضافات میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد مارچ مہینے کی 11 تاریخ کو کولگام ضلع کے اڈورہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے سرپنچ شبیر احمد میر کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مارچ 21 کو بڈگام ضلع کے گوٹ پورہ علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک شہری، تجمل محی الدین راتھر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 26 مارچ کو عسکریت پسندوں نے ضلع بڈگام میں اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) اشفاق احمد ڈار اور ان کے بھائی عمر احمد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر اپریل مہینے کی چار تاریخ کو کشمیری پنڈت بال کرشن نامی ایک دکاندار کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے ان کی رہائش گاہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد 13 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے کولگام ضلع میں ایک شہری ستیش کمار سنگھ کو اس کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سنگھ ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا اور اس کا تعلق راجپوت برادری سے تھا، جو تقریباً 70 سال قبل پنجاب سے کولگام اور شوپیاں کی سرحد سے متصل علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ اس کے بعد 15 اپریل کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے بارہمولہ ضلع کے ایک باغ میں سرپنچ منظور احمد بنگرو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ اس سال ہلاک ہونے والے تیسرے سرپنچ تھے۔
اسی دن پولیس کانسٹیبل ریاض احمد ٹھوکر کو عسکریت پسندوں نے پلوامہ میں ان کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 17 مئی کو رنجیت سنگھ جو بارہمولہ میں ایک نئی کھلی ہوئی شراب کی دکان پر سیلز مین کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک گرینیڈ حملے میں مارا گیا تھا۔
25 مئی کو بڈگام ضلع میں ایک ٹیلی ویژن آرٹسٹ امرین بٹ کو مشبتہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کیا ۔ اس حملے میں اس کا 10 سالہ بھتیجا زخمی ہوا۔ 31 مئی کو جموں و کشمیر میں ٹارگیٹ حملوں کے ایک اور واقعے رونما ہوا جس میں کولگام ضلع میں عسکریت پسندوں نے ایک ہندو اسکول ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 36 سالہ رجنی بالا جموں خطے کے سامبہ کی رہنے والی تھی او وہ کولگام کے گوپال پورہ علاقے میں بطور ٹیچر تعینات تھی۔
اس کے بعد یکم جون کو راجستھان کے ایک بینک منیجر کو ضلع کولگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وجے کمار علاقی دیہاتی بینک کے کولگام برانچ میں بینک منیجر تھے۔ 22 جون کو ایک پولیس انسپکٹر پرویز احمد ڈار کو دو نامعلوم عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ سرینگر نوگام علاقے میں نماز پڑھنے جا رہے تھے۔
اس کے بعد جموں و کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں 11 اگست کو بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر مزدور کو عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 16 اگست کو عسکریت پسندوں نے سنیل کمار بٹ کو شوپیاں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اس حملے میں ان کا رشتہ دار پتامبر ناتھ بٹ زخمی ہواا تھا۔ سال کی آخری ٹارگٹ کلنگ اکتوبر مہینے کی 15 تاریخ کو پیش آئی جب شوپیاں میں عسکریت پسندوں نے پورن کرشنا بٹ کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
مزید پڑھیں: Target Killing in Kashmir کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات
اس کے علاوہ مزید امسال صحافیوں کو بھی مبینہ عسکریت پسندوں کے جانب سے آن لائن دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے پیش نظر کم از کم پانچ صحافیوں نے اپنے اداروں سے استعفیٰ دیا۔ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے مقامی صحافیوں سے کی ہفتوں تک پوچھ گچھ کی اور ابھی بھی اس معاملے میں تحقیقات جاری ہے۔Online Threat Journalists In Kashmir
ان سب کے حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے پولیس کے اعلی افسران سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " امسال عسکری وارداتوں میں کمی آئی ہے، ٹارگٹ کلنگز کے لیے ذمہ دار عسکریت پسندوں کو تصادم کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کو دی گی آن لائن دھمکیوں کے معاملے کی تحقیقات ابھی جاری ہے اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "بیشتر ٹارگٹ کللنگز ہائی برڈ عسکریت پسندوں نے انجام دی تھی۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر کے بعد کوئی بھی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی ہے، ہمارا سرولنس عسکریت پسندوں اور ان کے ہنڈلیرس کے لئے سر درد ہے۔ عسکریت پسندی کے خلاف سکیورٹی فروسز کی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ انہوں نے والدین سے گزارش کہ کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھنے اور غلط راہ پر انہیں جانے سے روکیں۔"
یہ بھی پڑھیں:
UAPA Cases in Kashmir عسکریت پسندی سے متعلق جرائم میں 97 فیصد کیسز یو اے پی اے کے تحت درج